باویریا (اصل میڈیا ڈیسک) جرمن صوبے باویریا کو کورونا وائرس کی وبا کے باعث دو ہفتوں کے لیے مکمل لاک ڈاؤن کر دیا گیا ہے۔ پندرہ ہزار سے زائد متاثرین اور چوالیس ہلاکتوں کے بعد پورے جرمنی کا لاک ڈاؤن بھی زیر غور ہے۔
یورپی یونین کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک جرمنی میں کورونا وائرس کی نئی قسم سے لگنی والی بیماری کووڈ انیس کے ہاتھوں اب تک چوالیس افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ اس وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد بھی جمعہ بیس مارچ کی سہ پہر تک پندرہ ہزار سے زائد ہو چکی تھی۔ جرمنی میں اب تک جن تین وفاقی صوبوں میں سب سے زیادہ انسانی ہلاکتیں ریکارڈ کی گئی ہیں، وہ نارتھ رائن ویسٹ فیلیا، باویریا اور باڈن ورٹمبرگ ہیں۔
جنوبی صوبے باویریا کے وزیر اعلیٰ اور چانسلر میرکل کی پارٹی سی ڈی یو کی اتحادی جماعت کرسچین سوشل یونین کے سربراہ مارکوس زوئڈر نے جمعے کے روز اعلان کیا کہ میونخ میں صوبائی حکومت نے کورونا وائرس کے تیز رفتار پھیلاؤ کو روکنے کے لیے پورے صوبے کو دو ہفتوں کے لیے پوری طرح لاک ڈاؤن کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
بحرانی حالات اور فوری ذمے داری
وزیر اعلیٰ مارکوس زوئڈر نے کہا، ”ہم بنیادی نوعیت کی پابندیاں لگاتے ہوئے معمول کی عوامی زندگی کو تقریباً پوری طرح بند کر رہے ہیں۔ اس دوران عام شہریوں کو صرف ضروری کاموں کے لیے ہی گھروں سے نکلنے کی اجازت ہو گی۔ مثال کے طور پر اشیائے خوراک وغیرہ کی خریداری، کام پر جانے، ادویات خریدنے یا پھر کسی ڈاکٹر کے پاس یا ہسپتال جانے کے لیے۔‘‘
باویریا کے وزیر اعلیٰ نے کہا، ”اس لاک ڈاؤن کا فیصلہ کرنا آسان نہیں تھا۔ ہم نے یہ فیصلہ تازہ ترین جامع معلومات کی روشنی میں اپنی فوری اخلاقی ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کیا ہے۔‘‘ مارکوس زوئڈر نے کہا، ”آج ہم اگر صورت حال کا سامنا کرنے کے بجائے اپنا منہ کسی دوسری طرف نہ کریں، تو میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ کورونا وائرس کی اس وبا کے بعد بھی باویریا کی ریاست موجود ہو گی اور وہ پہلے کے مقابلے میں مضبوط تر ہو گی۔‘‘
پورے جرمنی کا لاک ڈاؤن بھی زیر غور
جنوبی جرمن ریاست باویریا ملک کا وہ پہلا صوبہ ہے، جس نے کورونا وائرس کے وبائی پھیلاؤ کے باعث اپنے ہاں مکمل لاک ڈاؤن کا عملی فیصلہ کیا ہے۔ یہ لاک ڈاؤن آج جمعے کی رات سے نافذالعمل ہو جائے گا۔ لیکن باویریا کے علاوہ کئی دیگر جرمن صوبے بھی کووڈ انیس نامی وبائی مرض سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
ان میں ملک کا سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ نارتھ رائن ویسٹ فیلیا بھی شامل ہے، جنوبی صوبہ باڈن ورٹمبرگ بھی، وفاقی دارالحکومت اور شہری رہاست برلن بھی اور شمالی جرمنی کی سٹی اسٹیٹ ہیمبرگ بھی۔ اسی لیے وفاقی سطح پر چانسلر میرکل کی حکومت اس بات پر بھی غور کر رہی ہے کہ آیا کورونا وائرس کو اس کی موجودہ تیز رفتاری سے پھیلنے سے روکنے کے لیے پورے ملک کو ہی لاک ڈاؤن کر دیا جائے۔
اس بارے میں چانسلر انگیلا میرکل اتوار بائیس مارچ کو تمام سولہ وفاقی صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کے ساتھ مشاورت کریں گی۔
جرمن کار ساز اداروں کا منفرد عطیہ
جرمنی اپنی کار سازی کی صنعت کی وجہ سے مشہور ہے اور ملکی معیشت میں موٹر گاڑیاں تیار کرنے والے وہ بہت سے ادارے کلیدی کردار ادا کرتے ہیں، جن کی تیار کردہ کاریں عالمی سطح پر صنعتی معیار کی علامت بن چکی ہیں۔ یورپ کے سب سے بڑے کار ساز ادارے فوکس ویگن کے صدر دفاتر شہر وولفسبرگ میں ہیں، مرسیڈیز گاڑیاں تیار کرنے والی کمپنی کا ہیڈ کوارٹر شٹٹ گارٹ میں ہے جبکہ بم ایم ڈبلیو کے مرکزی دفاتر میونخ میں ہیں۔
وولفسبرگ اور شٹٹ گارٹ سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق ملک میں کورونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے جرمن کارساز اداروں نے اپنے طور پر لاکھوں ایسے حفاظتی ماسک عطیہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جن کی مدد سے کووڈ انیس کے پھیلاؤ کو روکنے میں مدد ملے گی۔
ایف ایف پی دو اور ایف ایف پی تین اقسام کے یہ کئی لاکھ ماسک ان اداروں کی طرف سے ملکی ہسپتالوں، بڑی بڑی علاج گاہوں اور جرمن شہروں کے بلدیاتی اداروں کے صحت کے ذمے دار محکموں کو عطیہ کیے جائیں گے۔ ان اداروں نے یہ لاکھوں طبی حفاظتی ماسک عطیہ کرنے کا اعلان ملک وزیر صحت ژینس شپاہن کے ساتھ ایک ملاقات کے بعد کیا۔