تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی خو شی کی انتہا سے میری اشکبا رآنکھوں سے موتیوں کی لڑی جھڑ رہی تھی ‘مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ میرے پیر صاحب نے مجھے اپنی مریدی میں لینے کا فیصلہ کر لیا ہے میری سالوں کی تلاش اور پیاس ختم ہو نے والی تھی اب وہ خوش قسمتی اور سرشاری کا لمحہ آگیا تھا جس کا انتظا ر میں کئی سالوں سے کر رہی تھی اس گھڑی کے انتظار میں ایک ایک پل میں نے کا نٹوں پر چل کر گزارا تھا ۔میں اپنی خو ش قسمتی پر نازاں تھی کہ آخر مرشد پا ک نے مجھے اپنے قدموں میں جگہ دینے کا فیصلہ کر لیا تھا اس عظیم گھڑی کے لیے میں یہا ں کتنے مہینوں سے آرہی تھی بار بار اپنا خالی دامن مرشد کریم کے سامنے پھیلایا تھا اور آج مجھ داسی جو گن غلام پر پیر صاحب کو ترس آہی گیا تھا ا ب میں نے نشاط انگیز لہجے میں پیر صاحب کو التجا کی کہ میں عشق مجاز کا جا م کیسے پی سکتی ہوں مجھے اِس کے لیے کیا کرنا ہو گا تو پیر صاحب نے میرے سراپے پر گہری اور ٹٹولنے والی نظر ڈالی میری آنکھوں میں اندر تک جھا نکا اور کہا تمہیں عشقِ مجاز کے لیے مجھ سے عشق کر نا ہو گا ۔
میرے عشق میں فنا ہونا ہو گا مرشد کے عشق میں فنا ہو نا ہو گا جب تم مرشد کے عشق میں فنا ہو جائو گی تو یہاں سے ہی عشق حقیقی کا دروازہ کھلے گا یہیں سے تمہا رے عظیم سفرکا آغاز ہوگا ‘ یہیں سے ہی تم عشق حقیقی کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھو گی ۔ سفر بہت پر خار اور کٹھن ہے تم اچھی طرح سوچ لو اگر سفر درمیان میں ادھورا چھوڑنا ہے تو ابھی سے واپس چلی جائو اور دوبارہ کبھی اِس کو چے کی طرف مڑ کر بھی نہ دیکھنا آج تمھارے پاس وقت ہے تم واپس جا سکتی ہو اگر تم سفر شروع کر کے ادھورا چھوڑ کے چلی جا ئو گی تو نہ یہا ں کی رہو گی نہ اگلے جہان کی رہو گی اِس لیے تم ایک بار پھر اچھی طرح سوچ لو یہ بہت مشکل سفر ہے جس کے لیے بہت زیادہ ہمت اور مستقل مزاجی چاہیے اِس وادی میں مرشد ہی اول و آخر ہے اگر تم مرشد کی ذات کو حرف آخر بنا سکتی ہو تو ٹھیک ہے ورنہ واپس دنیا میں چلی جا ئو اور پھر کبھی اِس سفر کا نام بھی نہ لینا مرشد کی با تیں سن کر میں ڈر گئی کہ کہیں مرشد مُجھ سے ناراض نہ ہو جا ئیں میں نے اپنا سر مرشد پا ک کے قدموں میں رکھ دیا کہ خدا کے لیے مُجھ سے منہ نہ مو ڑیں میں ہر حال میں اِس سفر پر چلنا چاہتی ہوں ۔
PEER
میں اِس سفر کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی آپ خدا کے لیے مجھے اپنی غلامی میںقبول فرمائیں میں دل و جان سے آپ کے ہر حکم کی تعمیل کروں گی میں بڑی دیر تک مرشد کے قدموں سے لپٹی التجا کر تی رہی اور پھرمرشد کو مُجھ پر ترس آگیا ۔ پھر مرشد صاحب نے مجھے با زوئوں سے پکڑ کر اٹھا یا میری آنکھوں سے آنسووئوں کے ابشار مسلسل اُبل رہے تھے جنہیں مرشد کریم نے اپنے ہا تھوں سے صاف کیا ۔ آہستہ آہستہ میری طبیعت سنبھل گئی تو میں ہمہ تن گوش منتظر تھی کہ مرشد کریم اب مجھے کیا ہدایت دیتے ہیں تو پیر صاحب نے پہلا حکم یہ جا ری کیا کہ اب تم دن رات میرے تصور کو پکا ئو گی ہر وقت دن رات میرے تصور میں گُم رہو گی دن رات تنہا ئی میں بیٹھ کر چلتے پھرتے یہی تصور کر و گی کہ مرشد سامنے ہے ۔
اب تمھارا اوڑھنا بچھونا مرشد ہی ہو گا ۔ مرشد کا حکم ہر حال میں ما ننا ہو گا اب مرشد ہی دنیا میں تمہا را خدا بھی ہے ماں باپ بہن بھائیوں اور رشتہ داروں سب سے زیادہ عزیزہے اور پیار تم صرف اپنے مرشد سے ہی کرو گی ‘مرشد کی بات مانتے ہو ئے اگر تمہا ری جان بھی چلی جا ئے تو پرواہ نہ کر نا آج سے تمہا رے جسم اور روح پر تمہا رے مرشد کاپورا حق ہے آج سے تم مرشد کی کسی بھی بات سے انکار نہیں کرو گی مرشد کی پیروی کرو گی تو ہی تمہا ری اگلی منزلیں آسان ہونگیں مرشد صاحب بہت دیر تک اِس بات پر ہی زور دیتے رہے کہ آج سے تم مرشد کی زرخرید لونڈی باندی ہو مرشد کی کسی بات سے انکار بہت بڑی گستاخی ہو گی ۔ کیونکہ میں تصوف کی بہت ساری کتابیں پہلے ہی پڑھ چکی تھی ہر کتاب چیخ چیخ کر مر شد کی اطاعت پر زور دے رہی تھی تصور شیخ کا بھی جگہ جگہ ذکر تھا فنا فی شیخ کا تذکرہ بھی بے شمار جگہوں پر پڑھ چکی تھی ۔
Ishq
بزرگوں کے حالات میں بھی بے شمار ایمان افروز ایسے واقعات پڑھ چکی تھی جن میں مرشد مرید کے عشق اور فرما نبرداری کے دلوں کو چھو لینے والے واقعات بیان تھے لہذا میں کہیں نہ کہیں پہلے سے ہی مرشد کی مکمل اطاعت کے لیے تیار تھی کیونکہ میں جس نور کی تلاش میں تھی وہ نور مجھے مرشد کی ذات میں نظر آتا تھا یا یہ میرا وہم تھا ۔ بہر حال اب میں نے دن رات مرشد کا تصور پکا نا شروع کر دیا میں دن رات کسی بھی وقت جب مجھے مو قع ملتا مرشد کے تصور میں گم اور غرق ہو جا تی اور جب کبھی پیر صاحب کے آستانے پر جا تی تو مرشد صاحب کو ٹکٹکی با ندھ کر دیکھتی ۔ میں اپنی حالت پر بہت زیا دہ خوش تھی کہ آخر کار مجھے وہ راستہ مل گیا جس پر چل کر مجھے منزل ملنے کا یقین تھا ۔ میں دنیا میں ایک روبوٹ یا بے جان بت کی طرح گھوم پھر رہی تھی دنیا داری کے معاملات صرف وقت گزاری کے لیے کر تی تھی جبکہ میرا اصل مقصد اور ٹارگٹ مرشد صاحب سے عشق اور اُن کی تا بعداری تھی ۔ میں دن رات اپنی اسی دھن میں گم تھی لیکن پو ری کو شش کے باوجود مرشد کا تصور مُجھ سے پک نہیں رہا تھا ۔ اپنی اِس کمزوری کا میں بار بار مرشد سے ذکر کر تی تو مرشد پا ک فرماتے تم اِس عظیم مشن پر لگی رہو آخر کامیا بی تمہا ری ہی ہو گی ۔۔
کیونکہ میں ہر وقت مرشد کی ذات میں ہی گم رہتی تھی اِس لیے اب میرے ہونٹوں پر بھی ہر وقت مرشد پا ک کا ہی ذکر ہو تا تھا مرشد بھی میرے اشتیاق کو اور بڑھا تے باتوں باتوں میں بلھے شاہ ‘امیر خسرو اور جلال الدین رومی کا ذکر کر تے کہ کس طرح اُنہوں نے اپنے مرشدوں کو راضی کیا ‘مرشد راضی تے رب راضی ‘شعوری لا شعوری طور پر میں اب اِس مقام پر آگئی تھی کہ مرشد کا حکم میرے لیے حرف آخر اور رب کا حکم تھا جس کو میں ٹالنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی اور یہی میرے مرشد چاہتے تھے کہ میں ایک کٹھ پتلی کی طرح اُن کے اشاروں پر نا چوں اور پھر یہاں پر ایک اور کردار سامنے آتا ہے مرشد کے آستانے پر ایک بہت پرانی مریدنی آتی تھی جو مرشد کے بہت قریب بھی تھی اب اُس عورت نے مُجھ سے دوستی کاآغاز کیا اب وہ اکثر مجھے اپنے پاس بٹھا تی اور میری تعریف کر تی کہ تم بہت با صلاحیت مریدنی ہو تم ایک دن اپنی منزل تک ضرور پہنچو گی وہ بار بار مجھے ایک ہی بات سمجھا تی کہ مرشد کا حکم کبھی نہ ٹالنا اگر وہ کبھی تم سے تمھاری جان بھی مانگیں تو کبھی انکا ر نہ کر نا ۔ میں تو پہلے ہی مرشد کے رنگ میں رنگی جا چکی تھی۔
اُس عورت کی باتوں سے اور بھی پکی ہو گئی اور پھر ایک دن اُسی عورت نے تنہا ئی میں مجھے کہا کہ آج میں تمہیں ایک خاص با ت اور راز بتا ئوں گی اگر تم نے اِس راز کو پا لیا مان لیا تو تمہیں مرشد پاک کے دل و دما غ میں وہ خاص جگہ نصیب ہو گی جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہے میں شدت سے اِس انتظار میں تھی کہ وہ کو نسی بات اور راز ہے جس میں مرشد کی رضا شامل ہے اور پھر اُس عورت نے میری طرف غور سے دیکھا اور کہا جو بات میں تم سے کر نے جا رہی ہوں اِس کو غور سے سنو اور کسی سے بھی ذکر نہ کر نا بات یہ کہ مرشد جس سے بہت راضی ہو جا تے ہیں اُس کو اپنی لو نڈی کنیز بنا لیتے ہیں اُس لونڈی کے جسم پر بھی مرشد کو اختیار ہو تا ہے اب مرشد پاک نے تمھیں لو نڈی بنا نے کا فیصلہ کیا ہے ۔
Professor Mohammad Abdullah Bhatti
تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ای میل: help@noorekhuda.org فون: 03004352956