تحریر : سجاد علی شاکر میرے گھر سے کچھ منٹوں کی دوری پر موجود یوحنا آباد ناقابل برداشت اور دل کو دہلا دینے والا گزشتہ دنوں واقعہ پیش ہوا جس نے پورے پاکستان کی فضا کو سو گوار کر ڈالا اور ہر آنکھ اشک بار ہوئے بنا نہ رہ سکی ۔یوحنا آباد کے سانحے کی مذمت ہر کسی نے کی ہے، میرے پاس بھی الفاظ نہیں کہ میں اس اندوہناک واردات کی مذمت کر سکوں۔ یہ انسانیت پر حملہ ہے۔ یہ ریاست پاکستان پر حملہ ہے۔میرے نبی نے غیر مسلموں سے حسن سلوک اور روادری کانہ صرف درس دیا بلکہ اس کا عملی نمونہ اس طرح پیش کیا کہ مدینہ کی مسجد میں ایک مسیحی وفد کو ٹھہرایا،اور ان کی ہر طرح کی خدمت کی حتی کہ غلاظت تک اپنے ہاتھوں سے صاف کی۔دہشتگرد وںنے شمالی وزیرستان خالی کرنے کے بعد سے اپنے ہتھکنڈے بدل لئے ہیں، وہ کبھی شیعہ آبادی کو نشانہ بناتے ہیں، کبھی مسیحی آبادی کو اور کبھی پشاور کے ایک اسکول کے پھولوں جیسے بچوں کو۔ان کی سازش یہ ہے کہ وہ پاکستان کوایک خطرناک اور متعصب ملک قرار دلوادیں۔اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم اتحاد کا مظاہرہ کرے اور حکومت کی کاوشوں کا ساتھ دے۔قومی قیادت نے مثالی یگانگت کا مظاہرہ کیا ہے اورقوم کا بھی فرض ہے کہ کہ وہ دہشت گردوں کے لئے نرم گوشہ نہ رکھے۔
یوحنا آباد سانحے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے طالبان نے اعلان کیا ے کہ ملک میں مذہب کے عملی نفاذ تک وہ ایسی قتل وغارت جاری رکھیں گے، کوئی ان سے پوچھنے والا ہو کہ کونسا مذہب ہے جس کے نفاذ کے لئے قتل وغارت کی گئی ہو یاجس کے نفاذ کے بعد قتل و غارت جاری رکھی گئی ہو۔ ا سلام ا ور مسیحیت میں تو ایسی کوئی اجازت اور گنجائش نہیں۔قیام پاکستان کے بعدبابائے قوم نے بھی اعلان کیا تھا کہ اب یہاں مسلمان، ہندو، مسیحی ، سکھ کی کوئی تمیز نہیں، سب کے سب پاکستانی ہیں اور سب کے حقوق مساوی ہیں ملکی آئین ہر شہری کی جان اورمال کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرتا ہے اور افواج پاکستان یا دوسری سیکورٹی فورسزبلا تمیز رنگ ونسل، مذہب ، فرقہ، صوبہ ہر شہری کو تحفظ فراہم کر رہی ہیں۔یوحنا آباد کے سانحے کو کسی نے مقامی سانحہ نہیں سمجھا، اس پر پوری قوم سوگوار ہے، پر نم ہے،یہ ایک اجتماعی دکھ ہے، یہ پاکستان کا سانحہ ہے اور ہماری تاریخ کا ایک المناک باب۔ہماری اقلیتوں کو شر انگیزی کا نشانہ بننے سے گریز کرنا چاہئے۔وہ جان لیں کہ دہشت گرد پاکستان ا ور اس کے عوام کے دشمن ہیں۔وہ ہمارے اجتماعی دشمن ہیں اور ہمارا قومی اتحاد ہی ان کے مذموم عزئم کو ناکام بنا سکتا ہے۔
آرمی چیف کے الفاظ یادا تے ہیں کہ پاک فوج اپنے عوام کی حمائت سے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گی۔صوبائی دارالحکومت کے علاقہ یوحنا آباد میں دہشتگردی کی کارروائی کے بعد مشتعل مظاہرین نے دہشتگردوں کے ساتھی قرار دے کر دو مشتبہ افراد کو سر عام پیٹرول چھڑک کر زندہ جلا دیا اور اس دوران وہاں موجود بعض افراد موبائل سے ویڈیوبھی بناتے رہے ، ڈی آئی جی آپریشنزلاشوں کو لگی آگ بھڑکانے کیلئے انکے اوپر پھینکے کپڑے ہٹانے کی کوشش کرتے رہے لیکن مشتعل مظاہرین نے انہیں بھی پیچھے دھکیل دیا جسکے بعد انکی سکیورٹی انہیں اپنے حصار میں لے کر وہاں سے چلی گئی۔ مسیحی عباد ت گا ہوں کے باہر دھماکوں کے بعد وہاں جمع ہونے والے مشتعل مظاہرین نے جائے وقوعہ سے دو مشتبہ افراد کو دہشتگردوں کا ساتھی قرار دے کر قابو کر لیا اور ان پر بہیمانہ تشدد شروع کر دیا جس کے باعث انکے کپڑے پھٹ گئے اور انکے جسم کے مختلف حصوں سے خون بہنا شروع ہو گیا۔وہاں پہنچنے والے پولیس کے اہلکاروں نے دونوں مشتبہ افراد کو اپنے ساتھ لیجانے کی کوشش اور وہ کافی دیر بعد اس میں کامیاب ہو گئے لیکن اس دوران بھی مظاہرین کی طرف سے ان پر تشدد کا سلسلہ جاری رہا اور اسی دوران مشتعل مظاہرین نے دونوں مشتبہ افراد کو پولیس سے چھین لیا اور ان پر تشدد کرتے ہوئے انہیں دوسری طرف لے گئے جس سے وہ تقریباً ادموھے ہو گئے جس پر مشتعل مظاہرین نے ان پر پیٹرول چھڑک کر اور کپڑے پھینک کر انہیں سر عام آگ لگا دی۔ نجی ٹی وی کی طرف سے دکھائی جانے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس دوران ڈی آئی جی آپریشنز ڈاکٹر حیدر اشرف مظاہرین کو پیچھے دھکیلتے ہوئے وہاں پہنچے اور انہوں نے مظاہرین کی طرف سے لاشوں کو لگی آگ کو بھڑکانے کے لئے ان کے اوپر پھینکے گئے کپڑے ہٹانے کی کوشش تو مظاہرین نے ڈی آئی جی آپریشنز کو بھی دھکے دے کر پیچھے دھکیل دیا اور مظاہرین کے تیور دیکھ کر پولیس اہلکاروں نے ڈی آئی جی آپریشنز کو اپنے حصار میں لے لیا اور وہاں سے چلے گئے۔
Protest
یوحنا آباد میں دھماکوں کے بعد مشتعلا مظاہرین کی طرف سے دہشتگردوں کے ساتھی قرار دے کر جلائے جانیوالے دو مشتبہ افراد کی لاشیں کئی گھنٹوں بعد سڑک سے اٹھا کر مردہ خانے منتقل کی گئیں۔سانحہ یوحنا آباد کے بعد جلایا گیا نعیم عام شہری نکلا اور قصور کا رہائشی تھا۔ محمد نعیم کی بہن کا کہنا تھا کہ اس کا بھائی دکان کے لیے شیشہ خریدنے کیلئے صبح 8 بجے لاہور گیا تھا۔ 2 گھنٹے بعد اس کا فون آیا کہ لاہور میں بم دھماکا ہو گیا ہے اس کے بعد اس کا فون بند ہو گیا۔ محمد نعیم کی ماں کا کہنا تھا کہ اس کا بیٹا نمازی اور پرہیز گار تھا وہ کبھی ممنوعہ سرگرمی میں ملوث نہیں ہوا۔نعیم کا باپ مہر محمد شفیع صدمے سے نڈھال ہو گیا۔ نعیم کی والدہ کا کہنا تھا کہ کیا حکومت میرے بیٹے کے قاتلوں کو گرفتار کرے گی۔ محمد نعیم کی ہلاکت کی خبر کے بعد مسیحی آبادی میں خوف و ہراس پھیل گیا کسی بھی ناگہانی صورتحال سے نمٹنے کے لیے پولیس موقع پر پہنچ گئی۔ ادھر سانحہ یوحنا آباد کے بعد جلائے گئے شخص کا مقدمہ درج کروانے کے لیے اسکے بھائی محمد سلیم نے تھانہ نشتر ٹاؤن میں درخواست دے دی ۔یوحنا آباد سانحہ میں مظاہرین کے ہاتھوں تشدد کے بعد قتل ہونے والے دوسرے شخص کی بھی شناخت ہو گئی ہے۔ یوحنا آباد میں گرجا گھروں میں ہونے والے خود کش دھماکوں کے بعد مشکوک سمجھ کر مظاہرین نے 2 افراد کو تشدد کا نشانہ بنا ڈالا اور اس کے بعد انہیں پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی گئی تھی۔جلائے جانے والے ایک شخص کی شناخت حافظ نعیم کے نام سے ہوئی تھی جبکہ دوسرے شخص کی بھی شناخت بابر نعمان کے نام سے ہو گئی ہے۔
بابر نعمان کے ورثاء کی جانب سے تھانہ نشتر کالونی میں رابطہ کیا ہے جس میں ورثاء کی جانب سے مقتول کی لاش ان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ہے بابر نعمان کے والد کا کہنا تھا کہ وہ گجومتہ میں کپڑے کی فیکٹری میں کام کرتا تھا جبکہ وہ سرگودھا کا رہائشی تھا۔اس کے والد کا مزید کہنا تھا کہ بابر نعمان کی عمر 25 سے 26 سال تھی جبکہ وہ اتوار کی صبح 10 بجے فیکٹری سے نکلا تھا اور ابھی تک لاپتہ ہے۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ ان کے بیٹے کی لاش ان کے حوالے کی جائے جبکہ پولیس کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ جلائے جانے والے شخص کی لاش کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا جا رہا ہے جبکہ اس ٹیسٹ کی رپورٹ آنے کے بعد ہی اس کی میت ورثاء کے حوالے کی جائے گی چرچ حملوں کے دوسرے روز بھی مسیحی برادری کی جانب سے احتجا ج کا سلسلہ جاری رہا،مظاہرین فیروز پور روڈ پرجمع ہوگئے اور ٹائرنذرآتش کر کے ٹریفک بلاک کردی جس سے گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئی،ٹریفک بلاک ہونے سے شہریوں کوپریشانی کا سامنا کرنا پڑا،دوسری جانب احتجاج کے پیش نظر میٹروبس سروس کا روٹ بھی محدود کردیا گیا،ادھر واقعے کے سوگ میں یوحنا آباد کے علا قہ کاروباری مراکز اورمشنری سکول بھی بند ہیں، دوسری جانب ایس پی انویسٹی گیشن ڈاکٹر رضوان نے جائے وقوعہ کا دورہ کی اور عینی شاہدین کے بیانات قلمبند کئے،مسیحی بھائیوں کی جلتی، کوئلہ بنی چیخیں سنیں تو میر ا دل دہل کر رہ گیا۔ یہ ناقابل برداشت منظر تھا ور اور ہم مسلم اکثریت والے ملک کے لئے باعث شرم بھی ،مگر ہمارے مسیحی بھائی جانتے ہیں کہ دہشت گرد کسی کو معاف نہیں کرتے۔ چرچوں میں دھماکے ہوتے ہیں تو مسجدوں، امام بارگاہوں، عید میلاد اور محرم کے جلوسوںمیں بھی دھماکے ہوتے ہیںا ور لاشیں گرتی ہیں۔ مگر ابھی پشاور کے چرچ میں قتل و غارت کو دنیا نہیں بھولی تھی کہ اب یو حنا آباد میں قیامت برپا ہو گئی۔ہمارے دشمن یہ پراپیگنڈہ کر سکتے ہیںا ور کرتے ہیں کہ پاکستان اقلیتوں کے لئے محفوظ ملک نہیں، کئی خاندان اس آڑ میں دوسرے ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔
لاہور میں ایک پوری بستی جوزف کالونی کو جلاد یا گیا، کوٹ رادھا کشن میں بھی مسیحی بھائیوں پر قیامت ٹوٹی۔میں ٹیکسلا کے مسیحی ہسپتال کا نوحہ لکھوں یا سانگلہ ہل اور گوجرہ کا ماتم کروں۔ ظلم وستم کی ایک طویل تاریخ ہے جو ہمارے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے مگر میں پھر کہوں گا کہ مسیحی بھائی اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ بحیثیت مجموعی مسلم اکثریت ان جرائم میں شریک نہیں بلکہ خود اس بھیانک کھیل کا ٹارگٹ ہے۔ صرف پچھلے بارہ برس میںساٹھ ہزار پاکستانی ،دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ان میں چھ ہزار کے قریب پاک فوج کے افسرا ور جوان بھی شامل ہیںجو شہادت کے مرتبے پر سرفراز ہوئے، پاک فوج نے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا رکھی ہے اور ہر روز آرمی چیف اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک ضرب عضب جاری رہے گی۔
Sajjad Ali Shakir
تحریر : سجاد علی شاکر sajjadalishakir@gmail.com 03226390480