تحریر : شکیل مومند جب شہروں اور گائوں کے مکان کچے تھے ۔رشتے ناطے کتنے سچے اور پکے ہوا کرتے تھے۔ جب کسان اور زمیندارخود کھیتوں میں ہل چلایا کرتے تھے۔ تو ملک میں اناج کے ڈھیر ہوا کرتے تھے۔ جب ہم فصلوں میں کھاد اور زہریلے سپرے نہ کیا کرتے تھے۔ تب اتنے ہسپتال اور ڈاکٹر بھی نہ تھے۔جب کسان وزمیندار فصلیں اُٹھانے سے پہلے عشر دیا کرتے تھے۔ اور بارشیں بھی وقت پر ہوا کرتے تھے۔ جب مالدار تاجر زکواة ادا کیا کرتے تھے۔ ناگہانی آفت کب آیا کرتے تھے۔ جب ہم دودھ میں پانی نہیں ملایا کرتے تھے۔کھل اور چوکر بھی مہنگا نہیں ہوا کرتے۔ جب ہم جدید طرز زندگی پر فطرت کوترجیح دیا کرتے تھے۔ سادہ لباس، سادہ خوراکیں کھایا کرتے تھے۔
جب مساجد کچے ہوا کرتے تھے۔ ہم ایمان کے پہاڑ ہوا کرتے تھے۔ جب ہم کنویں کا پانی پیا کرتے تھے۔ تو پانی کتنا ٹھنڈا اور میٹا ہوا کرتے تھے۔نہ ٹی وی تھا،نہ موبائل تھا، نہ نفرت تھی نہ منافقت تھی۔ کیا اچھے لوگ تھے کیا خوب زمانہ تھا۔ صنعتی انقلاب کے بعد زرعی دور کے یہ تہوار خواب و خیال ہوتے جارہے ہیں” ”اشر” بھی ہمارے ہاں ایک ایسی زرعی روایت کے طور پر آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود چلی آرہی ہے جو نہ صرف ہمیں آپس میں اتفاق ، اتحاد، تنظیم کاری اجتماعیت اور شراکت سکھاتی ہے بل کہ فصل کاٹنے یا فصل کی گہائی ”غوبل” کے دن تو یہ عمل ایک تفریح بھی سمجھا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ اس دن اچھی خوراک ملتی ہے خوشی کا موقع بھی ہوتا ہے پورے سال کے بعدگھرانے کے سب افراد خوشی کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں اگرچہ مشین(تھریشر) نے ”غوبل” (گہائی ) کو بالکل ختم کردیا کیوںکہ تھریشر کی ایجاد اور استعمال نے آج ”غوبل” کو ماضی کا ایک حصہ بنادیا ہے آج کی نوجوان نسل صر ف غوبل کے نام سے تو واقف ہے لیکن غوبل کیا تھا اور کس طرح کیا جاتا تھا اس سے موجودہ نسل بالکل ناواقف ہے۔گاؤں ، دیہات کے زمین داروں اور کاشت کاروں میں عام دستور ہے کہ کسی مسجد یا حجرے کی تعمیر کے سلسلے میں پہاڑ سے پتھر لانے، مٹی اور اینٹیں ڈھونے یا زمینوں میں ہل چلانے فصل کاٹنے اور گاہنے کے لیے اشر بلواتے ہیں، اشر کے ہر کام میں بڑی سرگرمی اور زور وقوت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے خصوصاً گہائی ( غوبل) کے وقت جب کہ جون ، جولائی کے دنوں میں گیہوں پر بیلوں کو پھراتے تھے۔
Agriculture
زراعت سے وابستہ ہماری جتنی بھی رسوم وروایات اور تہوار تھے یا اب بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں ان روایات سے ہمیں ایک اچھا سبق یہ ملتا ہے کہ کس طرح ہمارے آباؤاجداد آپس میں ایک دوسرے کو چاہتے تھے کس طرح ایک دوسرے کے ساتھ اپنی ہم دردی کا عملی مظاہرہ کرتے تھے ان کے درمیان محبت بھائی چارے ، اتفاق اور یکجہتی کی جو فضاء قائم تھی اس فضاء کو مشین نے کس طرح نفرت اور بیگانگی سے آلودہ کردیا ہے ”اشر” کی روایت سے ہمیں جو درس ملتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ کام کاج میں بلامعاوضہ شرکت کرنا۔ چوںکہ آج زمانہ صنعتی انقلاب کی طرف گامزن ہے زرعی معاشرے کی روایات، آلات و اوزار ختم ہوتے جارہے ہیں ان روایات اور آلات و اوزار کے ساتھ ہمارے معاشرے کے لوگوں کے جو تصورات، احساسات وجذبات وابستہ تھے وہ بھی ختم ہوتے جارہے ہیں۔
لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے ماضی کی ان روایات، اقدار، رسوم و رواج ، تہواروں اور میلوں کو صرف ماضی پرستی یا قدامت پسندی کا نام دے کر مسترد نہ کریں بل کہ ان کو آج کے تناظر میں جانچیں، پرکھیں اور ان میں جو بھی مثبت اثرات، تصورات اور احساسات ہمیں ملتے ہیں چاہیے کہ ہم انہیں ایک جدید شکل و صورت دے کر اس میں ایک نئی تہذیبی اور ثقافتی روح ڈال دیں، زندہ قومیں اپنے ماضی کی درخشندہ روایات، تاریخ اور اقدار پر نازاں ہی نہیں ہوتیں بل کہ ان سے سبق بھی حاصل کرکے زندگی کی دوڑ میں دیگر قوموں کے ساتھ شانہ بشانہ ترقی اور خوش حالی کے میدان میں کھڑے ہونے کے لیے جدوجہد کرتی ہیں، افسوس کی بات تو یہ ہے کہ دیگر قوموں میں جتنا بھی علم اور شعور آتا ہے وہ اپنی روایات و اقدار میں جدید دور کے تقاضوں کے مطابق انقلابی تبدیلیاں لاکر تہذیب و تمدن کے میدان میں آگے بڑھنے کی کوشش کرتی ہیں۔
جب کہ بدقسمتی سے ہمارے ہاں تعلیم یافتہ طبقہ جتنا بھی علم اور تعلیم حاصل کرتا ہے وہ اپنی ثقافت اور اپنی تاریخ و تہذیب سے دور ہوتا جاتا ہے اس کے مقابلے میں ہمارے معاشرے کا وہ طبقہ جوان پڑھ اور ناخواندہ ہے وہ اپنی تاریخ، ثقافت اور تہذیب کے ساتھ والہانہ لگاؤ اور محبت رکھتا ہے لیکن جدید علم اور شعور نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنی ان روایات و اقدار میں کوئی انقلابی تبدیلی نہیں لاسکتا یہ کام دنیا کے ہر معاشرے میں تعلیم یافتہ اور باعلم لوگ ہی کرتے ہیں اور جب تک ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ اپنی تاریخ اور ثقافت کے ساتھ اس طرح کابرتاؤ کرتا رہے گا تو ہم اپنی تاریخ اور ثقافت کے بجائے غیروں کی تہذیب کے زیر اثر رہیں گے اور صنعتی انقلاب کے بعد زرعی دور کے ہمارے تہوار خواب و خیال بن جائیں گے۔