تحریر: سامعہ کنول، کراچی استاد دنیا کا خوبصورت ترین لفظ ہے اور تدریس کا شعبہ دنیا کے بہترین شعبوں میں سے ایک ہے۔ استاد شاگرد کا رشتہ دنیا کا بے لوث اور بے غرض رشتہ ہوتا ہے۔ اگر استاد نہ ہوتے جہالت کے کانٹے انسانیت کا دامن تار تار کردیتے، یہ استاد ہی ہے جو ایک معاشرتی حیوان کو علم سے روشناس کرواکے انسانیت کے سانچے میں ڈھالتا ہے۔ یوں تو بچے کے کردار کی تعمیر میں ماں باپ کا بھی ہاتھ ہوتا ہے مگر چونکہ استاد کا کام صرف اور صرف تعلیم کے ساتھ ساتھ بچے کی تربیت اور اسے تہذیب سکھانا ہے اس لئے اس سلسلے میں استاد کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے۔
دنیا میں جتنے بڑے لوگ پیدا ہوئے انہوں نے پہلے کسی استاد کے سامنے زانوئے تلمذ طے کئے پھر دنیا میں نام کما کر امر ہوئے۔ تمام بڑے لوگ اپنے استاد کی ہی محنت کا ثمر تھے۔ علامہ اقبال کو جب انگریز سرکار نے خطاب سے نوازا تو انہوں نے اپنے استاد کو ”شمس العلمائ“ کا خطاب دینے کی درخواست کی۔ جب ان سے استاد کی تصنیف طلب کی گئی تو اقبال عظیم نے برملا کہا کہ میں ہوں ان کی تصنیف۔ جس طرح ایک استاد کی اہمیت اور فضیلت ہوتی ہے ویسے ہی کچھ اہم ترین ذمہ داریاں بھی لاگو ہوتی ہیں۔ اساتذہ کو جہاں تک ممکن ہو سختی کا مزاج نہیں اپنانا چاہیے۔ بے جا مار پیٹ بچوں کی ذہنی نشونما کے لیے سخت مضر ہے۔ طلبہ پر اپنے بچوں کی طرح پیار نچھاور کریں اور سختی کو تیر بہدف نسخہ سمجھنے سے پہلے ایک لمحے کے لیے ٹھنڈے دل سے سوچ لیجئے کہ اگر سختی مار پیٹ کوئی بہتر چیز ہوتی تو سرکاردو عالمی اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعلیم و تربیت کے لیے نرمی والا مزاج نہ اپناتے۔
ہر طالب علم کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے الگ الگ توجہ دینی چاہیے تاکہ ان میں پڑھنے لکھنے کا شوق بیدار ہو۔ کندذہن اور نالائق بچے استاد کی توجہ و تربیت کے ذہین بچوں سے زیادہ محتاج ہوتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے آپ کو حیران کن صلاحیتیں رکھنے والا دماغ عطا کیا ہے۔ جس کو بروئے کار لاکر آپ نالائق اور کندذہن بچوں کو حصول علم کے لیے شوق و رغبت پر ابھارسکتے ہیں۔ یہ بچے بھی معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں اگر ان پر محنت کی جائے تو آگے جاکر یہ معاشرے میں بہترین کردار ادا کرسکتے ہیں۔
اسی طرح آپ ایک بہترین اور آئیڈیل کردار کے طور پر طلبہ کے سامنے خود کو پیش کریں۔ طلبہ کے سامنے پہناﺅ اور گفتار ایسا ہونا چاہیے کہ بچے بغیر کچھ کہے انہیں فالو کرتے ہوئے اچھے سے اچھے کی جانب بڑھیں۔ اگر آپ کسی دینی ادارے میں تدریس سے وابستہ ہیں تو سر سے پاو ¿ں تک شریعت کے مزاج میں رنگا ہونا آپ پر فرض ہے۔ بچے اپنے استاد کو جس طرح دیکھتے ہیںاسی انداز میں خود کو ڈھالتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں طالب علم استاد کا عکس ہوتا ہے اور بڑے ہوکر استاد بننا 50فیصد بچوں کا خواب ہوتا ہے۔ کل کو جب یہ بچے بڑے ہوکر مسند تدریس پر فائز ہوں گے تو آپ کے کردار کو فالو کریں گے۔ ایک بات قابل غور ہے کہ استاد محض خانہ پری نہیں کررہے بلکہ اپنا ہم زاد تخلیق کررہے ہوتے ہیں، جو آئندہ 20 سالوں میں آپ کی نقل کرنے کے قابل ہوگا۔ اس لیے ہر قدم مکمل غور فکر اور احتیاط کے ساتھ اٹھاتے ہوئے چلنا چاہیے۔
ایک اور بات جو تشویشناک ہے کہ عصر حاضر میں طلبہ کے دل سے علم اور استاد کا ادب و اہمیت ختم ہوتی جارہی ہے۔ اس کی بڑی وجہ استاد کا اپنے پیشے سے مخلص نہ ہونا ہے۔ استاد کی مثال تو اس باغبان کی طرح ہے جسے پودا لگانے اور اس کی بہترین نشونما کرنے سے مطلب ہوتا ہے۔ پھل کھانے سے اسے غرض نہیں ہوتی۔ پھر چند پیسوں کی لالچ میں طالب علم کا مستقبل برباد کرنا کہاں کا انصاف ہے۔ خدا نے بنی انسان کو تربیت و تہذیب سکھانے کا جو فریضہ آپ کے سپرد کیا ہے خدارا اس میں خیانت نہ کیجئے۔ اگر آپ کو اس پیشے کے تقدس کا خیال نہیںتو کوئی اور شعبہ اپنا لیجئے مگر اپنی نااہلی اور لاپرولااہی سے اس استاد جیسے عظیم کردار کو معاشرے میں سوالیہ نشان نہ بنائیں۔