سکون کے متلاشی

Life

Life

تحریر : وقارانساء

يہ لفظ سکون ھماری زندگی میں بڑا اھم مقام رکھتا ہے –جس کو پانے کے لئے انسان بھرپور تگ ودو کرتا ہے لیکن یہ وہ خوبصورت تصور ہے جس کے پیچھے جتنا بھاگیں حقیقت میں مجسم شکل نہیں ہوتا- اس کو تو انسان خود کوشش سے شکل دیتا ہے –وجہ یہ ہے کہ یہ زبردستی کہيں سے پکڑ لانے کی چيز نہیں- سکون خریدنے کی بھی چیز نہیں کہ مال دار ہی خرید ليں –کسی حد تک آسائشوں کا حصول اطمینان تو دے سکتا ہے

لیکن سکون نہیں اگر زندگی میں چيزوں کا حصول ہی سکون کا ذريعہ ہوتا تو شائد ہر چیز کے ميسر آجانے کے بعد سمجھا جاتا کہ بس اب سکون مل گیا –حقیقت اس سے مختلف ہوتی ہے انسان کی فطرت سے طمع کبھی نہیں جاتی وہ اس کے بعد خواہشات کی طویل فہرست بناتا جاتا ہے- اس طرح یہ زندگی میں نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے مر کر چين نصیب ہو تو ہو –

کيوں سکون کا راگ ھم الاپتے رہتے ھیں-جبکہ یہ ھمارے اپنے اختيار میں ہے –صبر شکر قناعت جيسے خوبصورت الفاظ ھماری زندگی کی لغت سے ختم ہو چکے ہیں -جب کہ ھم لوگ خود اپنے رويوں سے مخلوق خدا کا دل دکھاتے ہیں-تو سکون کی توقع کيسے رکھتے ہیں

کبھی انسان اپنی اصلاح کیوں نہیں کرنا چاہتا ؟دوسروں سے ہی ھماری توقعات کیوں وابستہ رہتی ہیں ؟اسی لئے تو گھروں میں خانداںوں میں برادری شہر اور ملک میں سکون نہیں –

ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ انسان اپنے رویے میں لچک کا مظاہرہ کرے –اسلام ايک خوبصورت مذھب جس نے زندگی کے خوبصورت اصول دئیے ہیں جن کوھم اپنانے کی کوشش نہیں کرتے – ھمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کا حسن اخلاق دشمنوں کے دل بھی موہ لیتا تھا –آج ھم ھر کسی سے يہ بات سنتے ہیں زندگی میں سکون نہیں لیکن کبھی غور نہیں کرتے کہ ھمارے رویے ھمیں بے چين رکھتے ہیں اگر يہ ہی محسوس کریں تو دلیل اس بات کی ہے کہ کہیں ضمير کسمسا ضرور رہا ہے اس پر اللہ کا شکر ادا کریں اور اصلاح کی کوشش کریں اس سے پہلے کہ وہ مکمل سو جائے اور پھر گنا ہ يا نیکی اچھائی يا برائی ھميں نظر ھی نہ آئے

ستم بالائے ستم یہ کہ ھم دوسروں کی خامیوں اور غلط باتوں کو تو دیکھ سکتے ھیں اپنی ھمیں نظر نہیں آتی حسن سلوک ضرور دوسروں کو بھی اپنی عادت بدلنے پر مجبور کر ديتا ہے -کیوں کہ برائی کو برائی سے نہیں ختم کیا جا سکتا – ھاں اچھا سلوک مخالف کو بھی سوچ بدلنے پر مجبور کر دیا ہے –آھستہ آھستہ وہ بھی رویہ بدلنے لگتا ہے

Guaranteed

Guaranteed

کسی کے کام آکر جو خوشی ملتی ہے اس کا کوئی نعم البدل نہیں- جو سکون حسن سلوک سے ملتا ہے –اس کا کوئی متبادل نہیں خوش اخلاقی ايک اعلی صفت ہے اور درشت مزاجی ایک ناپسندیدہ صفت-خوش اخلاقی سے انسان غيروں کے دل بھی موہ لیتا ہے اور بدزبانی سے اپنے بھی بیگانے بن جاتے ہیں ايک حدیث مين ارشاد ہوتا ہے کہ تم مجھے زبان کی ضمانت دو میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں

وہ تمام باتیں جو زندگی سے سکون ختم کرنے کی وجہ بنتی ہیں- ان کو سمجھ کر بہتری کی کوشش کرنی چاہیے یہ سب انسان تب سمجھے گا جب اللہ سے سچی لو لگا لے قرآن میں ارشاد ہے بے شک اللہ کے ذکر سے ہی دل اطمینان پاتے ہیں

Allah

Allah

يہ بات سمجھنے کی ہے جب تک انسان خود کو عاجز اور مالک حقیقی کے سامنے بے بس اور اپنی ضرورتوں کا محتاج نہیں سمجھ لے-تب ہی وہ اللہ کی بنائی ہوئی مخلوق سے رحم اور نیک سلوک نہیں کر سکتا جب وہ یہ نقطہ سمجھ جائے گا تو اپنے بہتر رویے اور اور سلوک سے ہر جگہ اور ہر رشتے سے نیک برتاؤ سے دوسروں کو اپنی عادت بدلنے پر مجبور کر دے کا وگرنہ ساری دنیا کے جھمیلوں سے کٹ کر بھی سکون نہیں پا سکتا

تحریر : وقارانساء