سارے عالم میں جدید تہذیب اور نئی فکر کا راگ الپا جا رہا ہے کہ اس تہذیب نے دنیا کے منظر نامے کو خوبصورت و خوش نما بنا دیا، اس تہذیب نے انسان کو زمین سے اٹھا کر چاند کی بلندی پر پہو نچانے کا انتظام کیا، اس تہذیب نے کم وقت میں زیادہ سفر کرنے کے لیے ہوائی جہاز کو ایجاد کیا، اس تہذیب نے انسان کو کم وقت میں زیادہ دولت منند بننے کے راستے بتلائے، اس نئی تہذیب نے انسانی ایجادات کو بے پناہ تطور دیا اور اس کی صلاحیتوں کو ابھار کر کائنات کی خوبصورتی میں اضافے کا موجب بنایا۔ اسی طرح کی بہت ساری ایجادات جو جدید تہذیب کے علمبرداروں کے واسطہ سے سامنے آئیں ان سے صرف نظر کرنا یا انکار کرنا محال ہے، اس امر میں تردد نہیں کہ جدید تہذیب نے انسان کو دنیا کی رنگ رنگینی اور اس میں پر تعیش اور اپنی ذات میں بنا کسی غیر کے بھلے کی فکر کے استراحت کے ساتھ جینے کا سامان تو فراہم ضرور کیا اور اس کے کسی امر میں دوسرے انسان کو چنداں حائل ہونے کی اجازت سے بے نیاز کردیاگیا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس جدید تہذیب نے انسانی معاشرے میں انسانی قدروں کو بیدار کیا؟کیا انسانوں میں دوسرے انسان کے بھلے کی تمنا وخواہش پیدا کرنے میں کوئی کردار اداکیا؟کیا دنیا اور دنیا میں رہنے والے انسانوں کو سب آسائشیں فراہم کرنے کے باوجود انسان کی حرص و لالچ کو مٹانے کا انتظام کیا؟ کیا انسان کو دسرے انسان کے حق کو غصب کرنے اور چھین لینے سے مستغنی کردیا گیا؟کیا انسان کو تمام تر وسہولتوں کے میسر آجانے کے بعد دنیا میں امن و آتشی کا دور دورہ ہوگیا؟اگر ایسا نہیں ہوا اور یقینناً ایسا نہیں ہوسکا تو یہ کہنے میں مجھے کوئی تردد نہیں کہ جدید تہذیب مادیت و مافادیت و مطلبیت کا مجموعہ ہے اور اس نظام کے تحت پرورش پانے والا خواہشات نفسانی کا غلام ہے اس کو کسی انسان کے اچھے یا برے سے کوئی سروکار نہیں،وہ انسانوں کے دکھ درد وں سے بے پروا ہے، جب یہ نظام ایسا ہے اور دنیا میں خیر و اچھائی کو فروغ دینے سے عاجز آگیا ہے تو یہ امر مسلم ہے کہ یہ نظام کامیابی و کامرانی کا کسی طرح سامان نہیں رکھتا اس کے لیے ہمیں کسی دوسرے اور بہتر نظام کی طرف متوجہ ہونا پڑے گا اور وہ طاقت و قوت صرف نظام نبوت میں موجود ہے۔
مفکر اسلام سیدابوالحسن علی ندوی رحمة اللہ کے مقالے ”نبوت کا کرنامہ” کا خلاصہ قارئین کے حضور پیش خدمت ہے۔ مولانا فرماتے ہیں کہ نبوت نے اپنے دور میں تعمیر انسانیت کا عظیم فریضہ سرانجام دیا ،ایسے افراد تیار کیے کہ جنھوں نے دنیا کو نئی زندگی بخشی، زندگی کو ( جو انسان اپنی غلط اندیشی و بے تدبیری سے ) بے معنی ہوگئی تھی کو بامعنی بنایا،نبوت کے ان کا رناموں میں جو زندگی کی پیشانی کے درخشاں و تاباں ہیں سب سے زیادہ روشن کارنامہ سیدنا محمدصلی اللہ وعلیہ وسلم کا کارنامہ ہے جس کی تمام تفصیلات تاریخ میں محفوظ ہیںمردم سازی و آدم گری میں اللہ نے جو آپ کو کامیابی عطافرمائی وہ آج تک کسی انسان کو حاصل نہیں ہوئی،آپ نے جس سطح سے تعمیر انسانیت کے کام کو شروع کیا اس مقام سے کسی مصلح و مربی کو کام کرنے کی نوبت پیش نہیں آئی ،آپ تعمیر انسانیت کاآغاز حیوانیت کے آخری مقام تک پہونچ جانے والوں سے کیا۔
آپ نے جس قدر پستی سے انسانی تربیت سازی کا کام شروع فرمایا اسی قدر بلندتر سطح تک انسان کی عظمت کو پہونچایا،آپ کے تیار کیے ہوئے افراد میں سے ہر ایک نبوت کا شاہکار ہے اور نوع انسانی کے شرف و افتخار کا باعث،انسانیت کے مرقع میں بلکہ اس پوری کائنات میں پیغمبروں کو چھوڑ کر اس سے زیادہ حسین و جمیل ،اس سے زیادہ دلکش و دل آویزتصویر نہیں ملتی جو ان کی زندگی میں نظر آتی ہے،ان کا پختہ یقین ،ان کا گہراعلم،ان کی بے تکلف زندگی ،ان کی بے نفسی و خداترسی، ان کی پاکبازو پاکیزگی،ان کی شفقت ان کی شہادت و عبادت، ان کی شجاعت، ان کی شہسواری و شب زندہ داری ،ان کی سیم و زر سے بے پرواہی اور ان کی دنیا سے بے رغبتی،ان کا عدل و حسن انتظام دنیا کی تاریخ میں اپنی مثال نہیں رکھتا۔مولانا فرماتے ہیں کہ نبوت کی فیض یافتگان کو دنیا کی بڑی سے بڑی ذمہ داری سونپی گئی تو انہوں نے اپنی اہلیت و صلاحیت، فرض شناسی ،احساس ذمہ داری،ذوق عمل،جذبہ خدمت سے اس کو سرانجام دیا۔دنیا کی سب سے بڑی نازک و خطرناک ذمہ داری حکومت جب ان کے سپرد کی گئی تو انہوں نے زہد وفقر، ایثار وقربانی، جفاکشی و سادگی کا ایسا نمونہ پیش کیا کہ دنیا محو حیرت رہ گئی۔
Allah
مولنا حبیب الرحمن خان شیروانی اپنی کتاب سیرة الصدیق میں لکھتے ہیں ”عہد صدیقی کے مئو رخ کا مئورخ کہتا ہے کہ سیدنا ابوبکر جب منصب خلافت پر متمکن ہوئے تو ان کے گھر میں شیرینی تیار کروانے کے لیے پیسے نہ تھے”،مولنا شبلی نعمانی حضرت عمر کے سفر شام کی روداد لکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ” وہ جب بیت المقدس کے قریب پہونچے تو ان کے لباس و سر وسامان کو دیکھ کر مسلمانوں کو شرم محسوس ہونے لگی تو انہوں نے ترکی النسل گھوڑا اور عمدہ قیمتی پوشاک پیش کی تو انہوں نے جواب میں فرمایا کہ اللہ نے ہمیں اسلام کے ساتھ عزت دی ہے اور یہی ہمارے لیے کافی ہے”،خلفائے راشدین و صحابہ کرام کی سیر ت ومحاسن کے مختلف پہلو کتابوں میں منتشر ہیں ان کو جمع کر کے ایک انسان کی مکمل زندگی و تصویر تیار کی جاسکتی ہے ،خوش قسمتی سے ان میں سیدنا علی المرتضی کی ذات سراپا اخلاق ہے ،صحابہ کرام کی سیرتوں کو پڑ ھ کر انسان دنگ رہ جاتاہے کہ نبوت نے اپنی تعلیم و تربیت مردم سازی و کیمیا گری کے کیسے نمونے چھوڑے ہیں۔
نبوت کے کارنامے صرف پہلی صدی ہجری کے لوگوں میں صر ف موجود نہ تھے بلکہ بعد کے ادوار میں بھی نورالدین،صلاح الدین،ناصر الدین محمود اور مظفرحلیم جیسے پاکباز و پاک سیرت لوگ موجود تھے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے سیکریڑی قاضی شدادلکھتے ہیں کہ ”صلاح الدین پر ساری زندگی زکواة فرض ہونے کی نبوت نہ آئی کیوں کہ وہ اپنا سارا مال صدقات میں خرچ کر دیتے تھے یہاں تک کہ وفات کے وقت صرف سینتالیس درہم ناصر ی اور ایک سونے کا سکہ چھوڑا ان کے کفن ودفن کا انتظام قرض اور انکے وزیر قاضی فاضل کے حلال مال سے کیا گیا”۔مولانا فرماتے ہیں کہ میں یہ نہیں کہتا کہ سارے مسلمان بادشاہ بے مثل و بے مثال تھے ،وہ اعلٰ قدروں کے نمونے تھے تھے لیکن یہ ضرور کہتا ہوں کہ جن فرمانروائوں میں انسانی بلندی ،خداترسی ،ایثار و قربانی ،شفقت و مرحمت کی شان نظر آتی ہے اور وہ اپنے زمانے کی سطح سے بلند ،بادشاہوں کی روایات سے الگ اور زمانے سے نرالے دیکھائی دیتے ہیں وہ صرف نبوت کے فیض سے فیض یاب ہوئے ہیں۔
مولنا فرماتے ہیں کہ جدید تہذیب نے زمانے کو سب کچھ دیا دنیا کو خوبصرت بنانے اور دیکھانے کے لیے مگر نہیں دیا تو وہ انسانی معاشرہ نہیں دیا جو انسانی معاشرہ کی ذمہ داریوں ،اور انسان کی سیرت سازی کے حامل افراد فراہم نہیں کیے۔جدید تہذیب کا ایک غلط مغالطہ ہے کہ رہزن و چور علیحدہ علیحدہ رہزن و چور ہیں لیکن جب وہ اپنی اجتماعیت قائم کر لیں تو وہ پاسبان اور ذمہ دار بن جاتے ہیںاگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ نئی فکری قیادت اور جدید تہذیب نے جو افراد دنیا کو عطاکیے ہیں وہ ایمان و یقین سے خالی،ضمیر انسانی سے محروم،اخلاقی قدروں سے تہی دست،محبت وخلوص کے مفہوم سے نا آشنا،انسانیت کے شرف و احترام سے غافل ہیں،وہ لذت و عزت کے فلسفہ سے واقف ہیں،قوم پرستی و وطن پرستی سے آشناہیں،اس نوعیت و صلاحیت کے افراد جمہوری نظام کے سربراہ ہوں یا اشتراکی نظام کے ذمہ دار وہ کبھی کوئی صالح معاشرہ ،پر امن ماحول اور خداتر س و پاکباز سوسائٹی قائم نہیں کرسکتے ،اور اس تہذیب کے علمبرداروں پر خداکی مخلوق ا ور انسانی کنبہ کی قسمت کے بارے میں کبھی اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔
نبوت کے پاس صالح ترین معاشرہ و صالح ترین افراد کی تیاری ،ان کے قلب کو بدلنے وگرمانے ،نفس کو جھکانے و جمانے،نیکی و پاکبازی کی محبت ،گناہ و بدی سے نفرت پیداکرنے،مال و زر ،ملک و سلطنت ،عزت و وجاہت،ریاست وتفق کی سحر انگیز ترغیبات کا مقابلہ کرنے کی طاقت پیداکرنے کی صلاحیت ہے اور یہی افراد جو ان صفات سے متصف ہوں دنیا کو ہلاکت اور جدید تہیذیب کو تباہی سے بچاسکتے ہیں۔نبوت نے دنیا کو سائنس نہیں دی ،ایجادیں نہیں عطاکیں،اور نہ ہی نبوت کو اس کا دعویٰ ہے اور نہ اس کے نہ دینے پر پشیمانی و معذرت،کیوں کہ نبوت کا اصل کام و کارنامہ یہ ہے کہ وہ دنیا کو ایسے افراد عطاکرے کہ جو خود صحیح راست پر چلے اور دنیاکو اس پر چلاسکے،ہر اچھی چیز سے خود نفع اٹھا سکے اور دوسروں کو اس کا فائدہ پہونچا سکے،ہر قوت و نعمت کو استعمال میں لاسکے،زندگی کے حقیقی مقاصد سے واقف،اپنے پیداکرنے والے سے آشنا،اس کی ذات سے استفادہ حاصل کرنے اور اس سے مزیدنعمتیں حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں،انہیں کا وجود انسانیت کا اصل سرمایہ اور انہی کی تربیت نبوت کا اصل کارنامہ ہے۔(کاروان مدینہ۔صفحہ 53-69)
جدید تہذیب و کار نبوت میں فرق کو جان لینے کے بعد ہم پر لازمی ہے کہ ہم اسی راست پر چلیں جو کہ دنیا و آخرت میں منفعت و فائدہ اور کامیابی و کامرانی کا موجب ہے اور وہ صرف اور صرف کار نبوت ہے ہمیں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی سیرتوں کا مطالعہ کرکے اپنے زمانے کی تمام مشکلوں کو حل کرنا ہوگا اس کے ماسوامیں بنا خسارہ و ذلالت و گمراہی کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو ذلالت و گمراہی سے محفوظ و مامون رکھے۔ آمین
Atiq Ur Rehman
تحریر: عتیق الرحمن 03135265617 atiqurrehman001@gmail.com