میں تو غزل سنا کے اکیلا کھڑا رہا سب اپنے اپنے چاہنے والوں میں کھو گئے
اپریل کے اواخر میں کراچی ائیرپورٹ سے نکلتے ہوئے جیو کے سینئر صحافی اور معروف اینکر حامد میر پہ قاتلانہ حملہ ہو گیا۔ اگلے ہی دن ان کے بھائی عابد میر نے ایک بیان داغ دیا کہ حامد میر نے کچھ عرصہ قبل ہی اپنا ایک تحریری بیان محفوظ کردیا تھا، جس کی کاپیاں ان کے ادارے کے فلاں فلاں شخص کے پاس بھی موجود ہیں کہ اگرمجھے کچھ ہوگیا توآئی ایس آئی کے ڈی جی ذمے دار ہوں گے۔ سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ ان کا چینل ”جیو” پورے آٹھ گھنٹوں تک اپنی اسکرین پر ڈی جی آئی ایس آئی کی تصویر کے ساتھ حامد میر کایہ الزام لکھ کے دکھاتا رہا۔ جیو کے برے دن آئے تو اس سے ایک اور سنگین غلطی سرزد ہوگئی۔
اس کے مارننگ شو کی اینکر شائستہ لودھی نے اداکارہ وینا ملک کی شادی کا ”ایکشن ری پلے” کرتے ہوئے اہلِ بیت کی شان میں جو گستاخی کی اس نے گویا پورے ملک میں آگ ہی لگا دی۔ خصوصاً ملک کے علمائے کرام نے احتجاج کا سلسلہ شروع کیاتو کیبل آپریٹرز بھی پارٹی بن کر اتنے دباؤ میں آگئے کہ جیو کی نشریات بند کرتے ہی بن پڑی۔ اس واقعہ کو تقریباًدو ماہ ہونے کو آئے، ملک بھر میں آج بھی جیو کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔
پیمرا کی جانب سے بلائے گئے اجلاس میں پہلے تو سرکاری اراکین شریک نہیں ہوئے پھر جب پرائیویٹ اراکین نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے جیو کی نشریات پر پندرہ دن کی پابندی عائد کر دی تو یہ بحث چھڑ گئی کہ پیمرا کا مذکورہ اجلاس قانونی تھا یا غیر قانونی؟ بعدازاں سرکاری اراکین نے بھی ایک اجلاس بلایا، اور اُن کا فیصلہ بھی یہی تھا کہ جیو کا لائسنس پندرہ روز کے لیے معطل کر دیا جائے۔ پھر صورت یہ بنی کہ ملک بھر میں جیو کی نشریات معطل ہوگئیں، اس کے مالکان اپنے اخبارات کے ذریعے روز یہ واویلا کرتے رہے کہ اس بندش سے ان کا یومیہ کتنا نقصان ہورہا ہے۔
اب معطلی کی مدت بھی ختم ہوگئی، تاہم اُس کی نشریات پوری طرح بحال نہیں ہوسکیں۔ چناںچہ آج بھی اُس چینل کا کہنا یہی ہے کہ اُس کی نشریات پوری طرح بحال کرائی جائیں۔ کوئی یہ نہیں بتا رہا کہ اُس غریب صحافی حامد میر کے زخم اب کیسے ہیں؟ اور وہ کتنے عرصے میںاپنے روزمرہ کے معمولات ادا کرنے کے قابل ہو جائیں گے؟ یعنی وہی شعر والی بات کہ حامد میر تو ایک الزام لگا کے، اپنا خدشہ ظاہر کر کے اکیلے ہوگئے اور حکومت ڈی جی آئی ایس آئی کی حمایت میں اور علماء توہینِ اہلِ بیت کے حوالے سے جیو کے خلاف کھڑے ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب ملک کے کسی نہ کسی شہر کی عدالت میں جیو کے خلاف ایک نیا مقدمہ درج نہ ہوتا ہو۔
جہاں تک جیو کی بندش کے مطالبے کا تعلق ہے تو یہ ایسا ہی ہے کہ کرے کوئی، بھرے کوئی۔ ارے بھئی…. جیو نے آئی ایس آئی کے سربراہ پر الزام لگا کے اور آٹھ گھنٹے تک ان کی تصویر چلا کے بے شک غلط کیا، خصوصاً قوالی کے معاملے میں تو اس کا اقدام یقیناً قابلِ تعزیر ہے۔ تاہم، چینل بند کرکے سزا کس کو دی جارہی ہے؟ یہ بھی تو کوئی سوچے۔ اس معاملے میں سب سے پہلے اس پروگرام کی میزبان سمیت تمام ٹیم ذمے دار ہے۔ اس کے بعد مجلسِ ادارت اور پھر مالکان، تو پھر سزا بھی اُنہی کو ملنی چاہیے نہ کہ ان ہزاروں کارکنوں کو جو چینل کی بندش کی صورت میں بے روزگاری کے جہنم میں جھونک دیے جائیں گے۔ ملک میں لوگ پہلے ہی بے روزگاری سے تنگ آکر خودکُشیاں کررہے ہیں، اپنے جگرگوشوں کو قتل کررہے ہیں، اُنہیں کوڑیوں کے مول بیچ رہے ہیں۔
بے روزگاری کا یہ سونامی اور آگیا تو ناکردہ گناہ کی سزا بھگتنے والے اپنے خاندانوں سمیت جیتے جی مر نہیں جائیں گے کیا؟؟ لیکن افسوس…. اس سلسلے میں کچھ دوسرے چینلز کاکردار بھی قابلِ ستائش نہیں۔ صحافی بجائے اس کے کہ اپنے ایک ساتھی کے ساتھ ہونے والی دہشت گردی کے خلاف ،جن میں ذاتی رنجشیں بھی جھلکتی تھیں، سینہ سپر ہوجاتے اور ملزموں کو بے نقاب کرتے، آپس میں اختلافات کا شکار ہوگئے۔ صحافی خصوصاً الیکٹرانک میڈیا کے اینکرز باہم دست وگریباں ہیں۔ دوسری جانب کچھ چینلز باقاعدہ فریق بن کر جیو دشمنی میں اس حد تک آگے چلے گئے ہیںکہ ان کے نزدیک تمام مسائل کا حل صرف اور صرف جیو چینل کی بندش ہی ہے۔
پنجابی کا ایک مصرع ہے : ”دشمن مَردے خوشی نہ کریئے، سجنا ں وی مرجاناں”۔ آج جیو کے خلاف ہونے والے ردِعمل پر بغلیں بجانے اور جلتی پر تیل چھڑکنے والے ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہیں سوچ رہے کہ اگر ملک کا ایک چینل بند کردیا جاتا ہے، خواہ اس کے پیچھے کسی نادیدہ قوت کی سازش ہویا واقعی اس کی اپنی غلطی اور نااہلی، تو پھر کل یہی ”گھڑیال” اِس جیسی چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کو کیوںکر بخش دے گا؟ آج اگر ایک چینل خاموش کردیا جاتا ہے تو مستقبل میں باقی چینلز کی زباں بندی نہ ہونے کی ضمانت کیوں کردی جاسکتی ہے؟ تازہ ترین مثال ایک اور چینل کی بندش کی صورت میں سامنے آچکی ہے۔
Electronic Media
برسوں پہلے تک جب صرف پرنٹ میڈیا ہی میدان میں تھا تو ملک بھر میں اس کے کارکنوں کی مجموعی تعداد محض چند ہزار تھی، لیکن اب الیکٹرانک میڈیا کو پیشِ نظر رکھا جائے تو کارکنوں کی تعداد دَسیوں ہزار تک جا پہنچتی ہے۔ پرنٹ میڈیا کے دَور میں 1970ء اور پھر 1977ء میں اخباری کارکنوں کی جدوجہد، مقتدر حلقوں کا جبر اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والی بے روزگاری، آج بھی بہت سے پرانے اور سینئر صحافیوں اور کارکنوں کو یاد ہے۔ آج اس پیشے میں موجود نوجوان نسل شاید ذہنی طور پر پر اس کی شدّت کا احساس نہ کرسکے۔
آج بھی سیاست دان اور مقتدر حلقوں کی جُون نہیں بدلی۔ وہ اپنا کھیل کھیل رہے ہیں۔ اتنے بڑے میڈیا پر بیک وقت ہاتھ ڈالنا شاید ان کے لیے ممکن نہیں۔لہٰذا، ایک ایک کر کے ”دشمن” گرانے کی پالیسی ہی انہیں بہتر دکھائی دیتی ہے۔ اور زد میں آنے والے شاید معاملے کی سنگینی کا ادراک کرنا نہیں چاہتے۔
یہاں مجھے ایک پرانی کہانی یاد آرہی ہے۔صورتِ حال سے ربط یا بے ربطی کا تعین آپ خود کرلیں۔ کون کس کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے؟ یہ بھی آپ خود طے کرلیں۔ ”ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کوئی بارات ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں گئی۔لڑکی کے گاؤں والوں نے ایک عجیب شرط رکھی تھی کہ بارات میں کوئی بوڑھا یا بزرگ نہیں ہوگا۔ لیکن باراتی بھی آخر گاؤں والے ہی تھے، ”بَری” کے سامان میں باندھ بوندھ، چھُپا کے ایک بڑے میاں کو بھی ساتھ لے لیا۔ کھانے کا وقت آیا تو میزبانوں نے ایک اور شرط عائد کی کہ ہر باراتی کو تھال میں بھنا ہوا سالم دنبہ پیش کیا جائے گاجو اُسے پورا ختم کرنا ہوگا۔ یہ شرط سُن کے باراتیوں کی تو جان پہ بن آئی۔ وہ سوچنے لگے کہ بھلا ایک آدمی سالم دنبہ کس طرح کھا سکتا ہے؟
تب ان کی سمجھ میںیہ بات آئی کہ کسی بزرگ کو ساتھ نہ لانے کو کیوں کہا گیا تھا۔ خیر….. انہوں نے بَری کے بورے کھدیڑ، بڑے میاں کو باہر نکالا ۔ بڑے میاں نے دوچار انگڑائیاں لیں، اپنی ہڈیوں پسلیوں کا ”تیل پانی” چیک کیا۔ وہ بورے میں بند ساری باتیں سن رہے تھے اور صورتِ حال کا جائزہ لے رہے تھے۔ انہوں نے سارے باراتیوں کو جمع کیا اور کچھ کن پھوسی کی۔ اس کے بعد باراتیوں نے جوابی شرط یہ عائد کی کہ بھنے ہوئے سالم دنبے ایک ساتھ لانے کی بجائے ایک ایک کر کے پیش کیے جائیں تاکہ وہ گرم رہیں۔میزبانوں نے یہ شرط بہ خوشی قبول کرلی۔ اب منظر یہ بنا کہ ایک بھنا ہوا، گرما گرم دنبہ آیا اور تمام باراتی اس پہ ٹوٹ پڑے،دوسرا دنبہ آنے تک تھال صاف ہوگیا۔ اسی طرح ایک ایک کر کے دنبہ آتا گیا اور باراتی چشم زدن میں اُس کی ”تکا بوٹی” کرتے رہے۔ یوں کسی کو پتا بھی نہ چلا اور سارے دنبے ختم ہوگئے۔
اب یہ موجودہ صورتِ حال میں اُلجھے میڈیا کے ادنیٰ واعلیٰ کارکنوں کا کام ہے کہ انہیں ”بڑے میاں” کو بورے سے باہر لانے کی نوبت لانی چاہیے یا نہیں؟ ذرا سوچئے…. ہو نا تو یہ چاہیے تھا کہ اس بارے میں پیمرا جیو کے مذکورہ مارننگ شو کی میزبان اور ٹیم سمیت مجلسِ ادارت اور مالکان سے بازپُرس کرتی۔ قانون کے مطابق قید وجرمانے کی جو سزا بنتی ہے وہ بھی انہی کو دی جاتی۔ الٹا چینل بند کرا کے دیکھنے والوں اور وہاں کام کرنے والوں کو ذہنی اذیت دی جارہی ہے۔
اس وقت ایک ”جیو” کا مارننگ شو کیا، تمام چینلز پہ جو مارننگ شوز دکھائے جارہے ہیں کیا وہ تمام کے تمام اسلامی اور اخلاقی تقاضوں کو ملحوظ رکھ رہے ہیں؟ مخلوط محفلوں میں گانا بجانا اور شادیوں کی تقاریب منعقد کرانا ایک طرف…. عام پروگراموں میں بھی ان کی میزبان جو لباس زیبِ تن کرتی ہیں ان کی قیمت کیا ہوتی ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ کیا پاکستان جیسے ترقی پذیر اور غریب ملک کی خواتین جنہیں اس مہنگائی میں گھر کے ہانڈی چولہے کے لیے اشیائے ضروریہ بڑی مشکل سے میسّر ہوپاتی ہیں، ایسے ملبوسات خریدنے کے بارے میں سوچ بھی سکتی ہیں؟ نتیجہ یہ کہ وہ مایوسی اور اعصابی تنائو یعنی ڈیپریشن کا شکار ہوتی جارہی ہیں، جس کا لازمی نتیجہ گھریلو ناچاقی، بچوں کی مار پیٹ اور اعصابی بیماریوں کی صورت میں نکل رہا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام مارننگ شوز فی الفور بند کردیے جائیں اور اگر اشتہارات کی آمدنی کی خاطر یہ شوز مجبوری بن چکے ہیں تو…. اشتہارات کی بات نکل ہی آئی تو یہاں یہ بتانابھی ضروری ہے کہ ہمارے چینلز پہ چلنے والے اکثر اشتہارات بھی بے حیائی اور عریانی کی تمام حدود پار کرچکے ہیں، اس بارے میں بھی سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔
بات ہورہی تھی مارننگ شوز کی…. تو ہر ادارے میں سنجیدہ، بردبار اور مخلص لوگوں پر مشتمل تھنک ٹینک بنائے جائیں جو گھریلو خواتین سے جن کے لیے یہ مارننگ شوز ترتیب دیے جاتے ہیں، سروے کرکے اس کی روشنی میں ایسے پروگرام تشکیل دیں جن سے خواتین کی گھر بیٹھے تربیت ہوسکے کہ وہ کس طرح کم بجٹ میں اپنے گھر کے اخراجات پورے کرسکتی ہیں۔ گھریلو رشتوں کو کس طرح نبھایا جاتا ہے، بچوں کی تربیت کیسے کی جاتی ہے۔ وغیرہ وغیرہ…. نہ کہ جعلی عاملوں اور پیروں کے ذریعے جھوٹے تعویذ برآمد کرا کے لوگوں کے ایمان کمزور کرنے کی کوشش کی جائے اور ان فراڈیوں کے کاروبار کو فروغ دیا جائے۔
مارننگ شوز سے ایک قدم آگے ”نائٹ شوز” یعنی ٹاک شوز کے بارے میں بھی اکثر لوگوں کی رائے یہی ہے کہ قبل اس کے کہ یہاں بھی کوئی ”بم پھٹے” اس کی پالیسی پر بھی نظرثانی کی جائے۔ وہاں بھی اینکرپرسنز بی جمالو بنے ہوئے ہیں۔ تین چار مختلف الخیال لوگوں کو جمع کیا اور کوئی متنازعہ شوشہ چھوڑ کے ایک طرف ہوگئے۔ اب شرکا ہیںکہ اپنی بات منوانے اور خودکو صحیح ثابت کرنے کی کوشش میں اخلاقیات کی تمام حدود پھلانگنے لگتے ہیں۔ ایسے ایسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیںکہ الامان والحفیظ…. اور یہ سب کچھ ”آزادیٔ اظہار” کے نام پر ہوتا ہے۔ گویا ”ہمارا میڈیا آزاد نہیں، آوارہ ہوگیا ہے۔” یہ جب چاہے، جس کی چاہے پگڑی اچھال دیتا ہے۔
Government Of Pakistan
حکومت تو خیر ویسے بھی ان معاملات میں ایک دو بیان دینے کے سوا کسی خاص سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کررہی وگرنہ ”جیو” کا معاملہ ہرگز اتنا طول نہ پکڑتا۔ تاہم، سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر کب تک اُس ادارے کے ملازمین ناکردہ گناہ کی سزا بھگتیں گے؟