تحریر: زہرا تنویر ملک میں یوں لگتا ہے جیسے سب کو مانگنے کی لت لگ گئی ہے۔ جسے دیکھو بس یہی ایک کام خوش اسلوبی سے کر رہا ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا شعبہ ہائے زندگی ہو گا جو ترقی کی منازل اتنی تیزی سے نہیں طے کر رہا ہو گا جتنا کہ پاکستان میں گداگری کا شعبہ ترقی کر رہا ہے۔ دن بدن گداگروں کی تعداد میں اتنا ذیادہ اثاثہ ہو رہا ہے جتنا کہ بےروزگاری میں۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے یہی ایک شعبہ ذریعہ آمدن کا رہ گیا ہے۔ اور کوئی کام ہی نہیں جس سے کمایا جائے۔
ماضی میں گداگر اور بھکاری سوالی کے نام سے جانے پہنچانے جاتے تھے۔ سوالی “مطلب سوال کرنے والا” اپنی ضرورت کا۔ سوالی کا حلیہ بذات خود سوال کر رہا ہوتا کہ میں ضرورت مند ہوں۔ اسی لیے سوالی کو عزت و احترام دی جاتی تھی۔ اکثر گھروں میں گھر کے بزرگ یہ کہتے دکھائی دیتے کہ سوالی کو اپنی چوکھٹ سے خالی ہاتھ نہ لوٹایا کرو۔ اور نہ ہی سوالی کی صدا سن کے دینے میں تاخیر کیا کرو۔ سوالی کو خالی ہاتھ لوٹانے پر اللہ ناراض ہوتا ہے۔ کسی کی مدد کر کے اللہ کو راضی کیا کرو۔ لوگ سوالی کی راہ تکتے رہتے اور سوچتے تھے کوئی موقع خاص آئے اور صدقہ خیرات دیں اور دعائیں لیں۔ لیکن اب ایسے سوالی قصہ پارنیہ ہو چکے ہیں۔ان کی جگہ گداگری نامی شعبے نے لے لی ہے۔
یہ گداگر جگہ جگہ یوں دندناتے پھر رہے ہوتے ہیں جیسے سب بازار اور سڑکیں ان کی ملکیت ہیں۔ گھر کے تمام افراد نے اپنے اپنے گلی محلے مخصوص کیے ہوتے ہیں۔ نہ دن کا پتا ہوتا ہے نہ رات کا جب دل کرتا ہے جہاں مرضی مانگنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ہفتے کے سات دن انہی کے ہوتے ہیں۔ ہر کام کرنے والے کو دفتر سے اتوار کی چھٹی ہوتی ہے۔ لیکن ان بیچاروں کو کسی دن چھٹی نہیں ہوتی۔ نہ ان کے آنے کا وقت ہوتا ہے نہ جانے کا۔ جب دل کرتا ہے دروازے کی اطلاعی گھنٹی بجا کر اپنی آمد یوں بتاتے ہیں جیسے کوئی ملاقاتی بہت دور سے آیا ہو۔ لوگ جہاں سوالی کو عزت و احترام دیتے تھے۔ اس جگہ اب ان پیشہ ور مانگنے والوں نے اکتاہٹ اور بیزاری میں بدل دی ہے۔ اچھی بھلی نوجوان لڑکیاں لڑکے، بچے، بوڑھے سبھی مانگنے کھڑے ہوئے ہوتے ہیں۔
معاشرے میں دن بدن بڑھنے والی بے راہ روی کو پھیلانے میں ایک ہاتھ ان گداگروں کا بھی ہے۔ بحیثیت ایک قوم کے ہم لوگوں کو چاہئے کہ ایسے عناصر کی روک تھام کرنے کے لیے کوئی قدم اٹھائیں۔ ہم لوگ ان کو بڑھانے میں کردار ادا کر رہے ہیں۔ اگر ہم لوگ ان کو کچھ نہ دیں تو کب تک یہ اپنا کاروبار چمکائے رکھیں گے۔ حق داروں کو ان کا حق نہیں ملتا صرف اور صرف ان پیشہ ور لوگوں کی وجہ سے۔ جنہوں اپنی ایک پوری تنظیم بنائی ہوتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی جڑیں مضبوط ہوتی جا رہی ہیں۔ معاشرے میں طرح طرح کی برائیاں پھیلانے میں یہ لوگ سب سے آگے ہیں۔ جن کو مانگنے والا سمجھ کر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔
Beggar
یہ مانگنے والوں کے روپ میں ڈسنے والے سانپ ہیں۔ جو آہستہ آہستہ معاشرے کو تباہ و برباد کر رہے ہیں۔ ضروری ہے کہ ان پیشہ ور گداگروں کے مستقل خاتمے کے لیے اہم اقدامات کیے جائیں۔ جو مستحق اور ضرورت مند ہیں ان کی جانب توجہ دینے سے یقینا ایسے افراد کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔اس مسئلے کا سب سے بہتر حل یہی ہے کہ ہم سب لوگ ایسے لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کریں اور اپنے گلی محلے اور اپنے رشتے داروں میں ضرورت مند کی ضرورت کا خیال رکھیں۔ یقینا ہمارے صدقے کے حقدار یہیں لوگ ہیں اور جب صدقہ حقدار کو ملے گا تو ضرور ہمیں اس کا اجرو ثواب اور خوشی ملے گی۔