تحریر: مزمل احمد فیروزی پاکستانی معاشرے میں ایک ناسور جو دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے وہ ایک معاشرتی برائی گداگری ہے اس بے قابو جن کو حکومتی ادارے چاہتے ہوئے بھی قابو کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں کچھ لوگوں کا خیال ہیکہ اس لعنت پر قابو نہ پانے کی بڑی وجہ وہ خفیہ اور طاقتور مافیا کے کارندے ہیں جو اس مکروہ دھندے کو چلا رہے ہیں جبکہ پڑھے لکھے طبقے کا کہنا ہیکہ “تہذیبی تبدیلی”کی ضرورت ہے ایسے لوگوں کا ماننا ہیکہ درگاہوں پر رحم کھا کر دئے جانے والے پیسوں سے انسانیت کی تضحیق ہو رہی ہے دینے والے یہ نہیں سوچتے کہ ان کے دیئے ہوئے پیسے کہاں جائیں گے یا پھر بھیک مانگنے والا شخص درگاہ تک کیسے پہنچا اور یہ بھی نہیں جانتے کہ یہ اپنے گینگ کے سربراہوں اور پو لیس کو حصے کے طور پر بھتہ بھی اداکر ے گا۔
پا کستان کے شہروں اور قصبوں میں صوفیا کرام کی کئی درگاہیں موجود ہیں اور ان کی در گاہوں پر لوگ کثیر تعداد میں منتیں اور دعائیں مانگنے آتے ہیں،یہ درگاہیں بھکا ریوں کے لیے کمائی کا بہترین ذریعہ ہوتی ہیں بھکاریوں میں بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے بھیک ما نگنے کا کام اتنے بڑے پیمانے پر ہے کہ پو لیس بھی ان بچوں سے شاید ہی کبھی پو چھتی ہے کہ یہ ان درگا ہوں تک کیسے پہنچے ۔آپ کسی درگاہ پر کچھ وقت گزارے کچھ ہی دیر میں آپ کو پتہ چل جائے گا کہ جو فقیر جسما نی طور پر جتنا معذور اور مجبور نظر آتا ہے لوگ اس کی جانب اسی قدر زیادہ متوجہ ہو تے ہیں اور اُسے بھیک میں زیادہ پیسے ملتے ہیں
Beggars
اسے حقیقت کہے یا اتفاق کہ بھکاری انسانی نفسیات سے باخوبی واقف ہوتے ہیں ان کو سب معلوم ہوتا ہے کہ کیسے انسانی جذبات پر حاوی ہو کر لوگوں سے پیسے نکلوائے جاتے ہیں جہاں دیکھا کم عمر لڑکا لڑکی ساتھ دیکھے وہاں یہ کہتے ہیں اللہ دونوں کی جوڑی سلامت رکھے اور جہاں نیا نویلا جوڑا دیکھا تو کہتے ہیں اللہ چاندسا بیٹا دے، اگر اکیلا لڑکا دیکھے توکامیاب ہونے اور اچھی جاب کی دعا دیتے نظر آتے ہیں یہ صرف ماہر نفسیات ہی نہیں بلکہ ٹھیک ٹھاک اداکار بھی ہو تے ہیں ،لو گوں کی تو جہ اور ہمدردیاں اپنی طر ف مبذول کر انے کے یہ سارے ہنر و گر ُ بخوبی جا نتے ہیں اور جانتے ہیں کہ کس سے کیا جملہ کہنا ہے اس کی ان کو باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے اور ریہرسل بھی کرائی جاتی ہے۔
اس وقت آپ کو جگہ جگہ کئی قسم کے بھکاری بھیک مانگتے نظر آئے گے پا کستان میں لا کھوں بچے بھکاری بن گئے اور تین لا کھ سے زائد جبری مشقت کا شکار ہیں ،پا کستان میں چا ئلڈ لیبر کے حوالے سے آخری سروے 1996 میں کیا گیا جس کے مطابق 30 لاکھ سے زائد بچے جبری مشقت کا شکار ہیں ایک رپورٹ کے مطا بق پشاور میں ڈھائی سے 3 لاکھ تک معصوم بچے محنت مزدوری کر تے جبکہ “کے پی کے ” میں دس لاکھ بچے جبری مشقت کا شکار ہیں ۔بین الاقوامی قوانین کے مطا بق بچوں سے جبری مشقت کر نا سنگین جرم ہے غیر سرکاری رپورٹ کے مطابق اس وقت پا کستان میں 33لاکھ بچے جبری مشقت کا شکار ہیں . اب تو لوگ گداگری کو بطور پیشہ قبول کرتے ہوئے ہچکچاتے نہیں ہیں
اس کا اندازہ ہمیں ایک سروے کے دوران ہوا جب ہم گداگری سے متعلق اپنی ایک رپورٹ مرتب کر رہے تھے اسی دوران ڈیفنس کے سگنل پر بھیک مانگنے والی ایک خاتون نے بات کرنے کے دوران اعتراف کیا کہ وہ گزشتہ 23 سال سے بھیک مانگ رہی ہے اور اس کے بچے بھی مختلف جگہوں پر بھیک مانگتے ہیں کیونکہ یہ ہی ان کا پیشہ ہے اور سب جانتے ہیں کہ ہم یہ کام کرتے ہیں جبکہ ایک اور خاتون جو کہ دیکھنے میں بنجارن لگ رہی تھی اس کا کہنا تھا ہم بچپن سے یہی کام کر رہے اور اس کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے مانگنا ہمارا پیدائشی اور خاندانی حق ہے جبکہ یہ لوگ نہیں جانتے کہ بھیک مانگنے کا تعلق کسی ذات یا برادری سے نہیں بلکہ اس کا تعلق ضرورت اور حاجت سے ہے بغیر ضرورت کے جو مانگے گا وہ اپنے لئے جہنم کی آگ اکٹھی کرے گا۔
Beggars
بھیک دینے والا ہمیشہ خوشی خوشی نہیں دیتا کبھی کوئی منہ بگاڑ کر دیتا ہے تو کوئی بڑبڑاتے ہوئے سکہ ان کے ہاتھ میں ڈالتا ہے یا پھر کوئی جھڑک کر یا نرمی سے انکار کر دیتا ہے یہ سب اس مانگنے والے کو سہنا پڑتا ہے کیونکہ اس کا ہاتھ مانگنے والا ہے اور مانگنے والا ہاتھ نیچے ہوتا ہے اس برداشت کرنا پڑتاہے کیونکہ دینے والا ہاتھ بہتر مانا جاتا ہے جیسا کہ حضور پر نورر ۖ کا فرمان عالیشان ہے کہ “اوپر کا ہاتھ نچلے ہاتھ سے بہتر ہے اوپر کا ہاتھ خرچ کرنے والا ہے اور نیچے والا ہاتھ مانگنے والا ہے “سب سے اہم بات یہ ہیکہ کیا گداگری روزی کمانے کاحلال طریقہ ہے ؟ اگر ان بھکاریوں کو بھیک دینا جائز نہیں تو پھر واقعی حاجت مند کی پہچان کیسے ہو گی ؟
ہم نے ڈاکٹر سید محمد عثمان سے پوچھا کہ اس سلسلے میںڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ اس سلسلے میں قراآن پاک نے واضح احکامات دیئے ہیں اور اس فعل کو انتہائی بُرا اور مکروہ قرار دیا ہے ان کا کہنا تھا کہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اس مکروہ فعل کو روکے اور اس کے خلاف عملی اقدامات کریں اور اگر آپ حاجت مند کی تلاش کر رہے ہیں تو اپنے رشتے داروں میں تلاش کرے اگر رشتے داروں میں نہ ہو تو پھر محلے میں دیکھے کوئی حاجت مند ہو تو اس کی مدد کریں ۔ گلی گلی پھرنے والے گداگروں پر نظر رکھے وہ اصل میں کسی گینگ کے جاسوس بھی ہو سکتے ہیں جو گھروں کی معلومات اپنے گروہ کے کارندوں کو دیتے ہیں بہت سے گداگر پولیس والوں کیلئے بھی کام کرتے ہیں ایک گداگر نے اپنا نام نہ ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اسے پولیس والے بھی اچھی خاصی رقم دیتے ہیں میں ان کو معلومات فراہم کرتا ہو ۔۔۔ حکومت کو اس طرف توجہ خاص دینے کی ضرورت ہے اوراس میں ملوث تمام کارندوں کی سر کوبی اور جو چھوڑنا چاہتے ہیں ان کی” کونسلنگ” بھی ہو نی چاہئے۔