تحریر : عروسہ جیلانی، شیخوپورہ ایک بار پھر عوامی عدالت میں میاں نواز شریف کی جیت ہوئی۔ لاہور میں قومی اسمبلی کے حلقہ 120 کے ضمنی انتخابات میں دو خواتین کے درمیان کانٹے کا مقابلہ رہا۔ ان میں سے ایک سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز اور دوسری طرف تحریک انصاف کی شعلہ بیان رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد تھیں لیکن بازی لے گئیں بیگم کلثوم نواز۔ لندن میں زیر علاج محترمہ کلثوم نواز کو اس معرکے میں بطور امید وار میاں محمد نواز شریف ہی سمجھا جا رہا ہے کیونکہ یہ حلقہ نواز شریف کی نااہلیت سے پہلے کے 35 سال میں انکا سکہ بند حلقہ رہا ہے اور ایک بار پھر اس حلقہ میں کانٹے دار ٹکر ہونے کے باوجود کامیاب رہے۔ نواز شریف اور انکی اہلیہ کلثوم نواز کی کامیابی کے ساتھ مریم نواز بھی سیاست میں اپنے نام کا لوہا منوا گئی ہیں کیونکہ اس انتخابی مہم کا مرکز و محور مریم نواز بنی رہیں اور ثابت کیا کہ وہ سوشل میڈیا کی گمنام دنیا سے نکل کر روزمرہ کی سیاست میں کامیاب قدم رکھ چکی ہیں۔
اس پوری مہم میں مریم نواز بہت پْر اعتماد اور جوش و خروش کا مظاہرہ کرتی نظر آئیں۔ اس حلقہ میں انتخابی مہم کے دوران مریم نواز اور پوری مسلم لیگ (ن) مسلسل عدالتی فیصلے پر سخت تنقید کرتے ہوے” الیکشن نتائج ” کو عوامی عدالت قرار دے رہے تھے انکے مطابق وہ عوامی عدالت کو ہی اصلی عدالت مانتے ہیں انکا یہ بیانیہ بہت حساس اور ملکی آئینی قانون کے لئے بڑا چلینج تھا کہ عدلیہ کے فیصلے کو ووٹرز کی عوامی عدالت کے زور پر للکارا جا رہا تھا لیکن اگر دیکھا جائے تو مسلم لیگ (ن ) اس مہم میں کامیاب ہوئی۔ اس کامیابی کہ ساتھ یاد رہے ڈاکٹر یاسمین 2013 کے مقابلے اس دفعہ کم مارجن سے پیچھے رہی ہیں۔اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا انہوں نے اس پورے انتخابی مہم میں خود کو ایئرن لیڈی ثابت کیا۔حلقہ 120 شہر میں قومی اسمبلی کے حلقوں کے مقابل سیاسی شعور ، تعلیم اور مخصوص متوسط طبقے کی عملی سیاست میں دلچسپی اور سرگرمی کے اعتبار سے بہت آگے ہے۔
جب قدیم فصیلی لاہور (والڈ سٹی ” میں مزید آبادی کی گنجائش ختم ہو گئی تو انگریز دور کے بعد بقیہ لاہور شہر کی جو اربنائزیشن شروع ہوئی ،یہ حلقہ زیادہ تر ان ہی آبادیوں پر مشتمل ہے جو کے راوی کے کنارے قصور پورہ اور کریم پورہ سے لے کر بلال گنج بخش ، سنت نگر ،شام نگر ،کرشن نگر ، ساندہ کلاں ، گلشن راوی ، نواں کوٹ ، بابو صابو اور نیازی چوک کو کور کرتا ہے۔دوسری جانب یہ مزنگ اور لوئر مال روڈ کے ساتھ ساتھ پرانی و نئی انار کلی تک محیط ہے۔شہر لاہور کا یہ حلقہ دربار داتا گنج بخش، مینار پاکستان (آزادی چوک ) ، کربلا گامے شاہ ، گورا قبرستان ، اکھاڑا رسم ہند امام گاماں پہلووان ، مزار مکی اور مزار حضرت بابا موج دریا، انگریزوں کا گورا قبرستان ، ضلع کچہری ، دیو سماج کالج و اسکول ( موجودہ اسلامیہ کالج و مسلم ہے سکول ) سیشن کورٹس ، ہندو آشرم ، گورنمنٹ کولج ، مقبرہ انار کلی ، چوبر جی ، اولڈ رئفلز رینج ، سول سکٹرٹریٹ ، پنجاب پبلک لائبرری ، لاہور موزیم ، پنجاب یونیورسٹی ، اردو بازار ، سر گنگا رام کی رہائش گاہ (موجودہ ہیلے کولج ) اور راوی روڈ پر سمادھی ، پیپلز ہاؤس ،(ایم پی ایز کا ہاسٹل ) فاونٹین ہاوس ( سر گنگا رام کا قائم کردہ ری ایسو سی یشن کا مرکز ، مزار زیب النسائ( نواں کوٹ ) اسی اہم حلقے کا تاریخی ثقافتی ورثہ ہے قارئین !اب ذرا سیاسی تاریخ میں جاتے ہیں کہ یہ حلقہ نواز شریف کاحلقہ عزیز کب سے اور کیسے بنا؟۔ 1970 کے انتخابات میں اس حلقے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ذولفقار علی بھٹو 35 ہزار 710 سے زائد ووٹ لے کر اس حلقے میں کامیاب ہوے پھر 1977 میں بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے ملک محمد اختر 58 ہزار 773 سے زائد ووٹ لے کر اس حلقے میں کامیاب رہے۔ لیکن 1985 کے انتخابات جنرل ضیاالحق کی زیرنگرانی پر غیر جماعتی بنیادوں پر ہوے جس کا پیپلز پارٹی نے بائیکاٹ کیا۔ اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میاں محمد نواز شریف کو اس حلقہ میں 35 ہزار 710 سے زائد ووٹوں سے کامیابی ملی جس کے بعد پیپلز پارٹی اس حلقہ میں قدم جمانے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ 1988کے انتخابات میں میاں محمد نواز شریف نے اسلامی جمہوری اتحاد میں شامل ہو کر اسی حلقے سے انتخاب لڑا اور 49 ہزار 310 ووٹ سے کامیابی حاصل کی جبکہ پیپلز پارٹی کے امید وار عارف اقبال نے 36 ہزار 65 ووٹ حاصل کر کے دوسرے نمبر پر رہے۔ 1990 میں میاں محمد نواز شریف کے خلاف پاکستان ڈیمو کریٹیک آلائنس قائم ہوا جس میں پیپلز پارٹی بھی شامل تھی لیکن پھر بھی مسلم لیگ (ن) 59 ہزار ووٹ لے کر کامیاب رہی۔ 1993 میں ایک بار پھر نواز شریف اس حلقہ میں انتخابات کے لئے کھڑے ہوے اور 57 ہزار 959 ووٹ حاصل کیے جبکہ پیپلز پارٹی کے ضیا بخت بٹ 33 ہزار 142 ووٹ حاصل کرکے دوسرے نمبر پر رہے۔1997 میں تحریک انصاف منظرعام پر آئی اور عمران خان نے بھی میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا۔
عمران خان 9 حلقوں سے انتخابات میں کھڑے ہوے جن میں NA_120 بھی شامل تھا جو کہ اس وقت NA_95 کہلاتا تھا۔ 1997 کہ انتخابات میں نون لیگ نے 50 ہزار 592 حاصل کیے جبکہ پیپلز پارٹی 9 ہزار 623 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہی اور عمران خان صرف 5 ہزار 365 ووٹ حاصل کر سکے۔پرویز مشرف کے دور یعنی 2002 میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف جلا وطن تھے جس کی وجہ سے انکی جگہ مسلم لیگ(ن) کے پرویز ملک نے انتخاب لڑا 33 ہزار 741 ووٹ حاصل کیے جبکہ پیپلز پارٹی کے الطاف احمد قریشی 19 ہزار 483 ووٹ حاصل کر کے دوسرے نمبر پر رہے۔
2008 میں میاں نواز شریف کی وطن واپسی ہوئی مگر طیارہ سازش کیس میں سزا کے باعث الیکشن کے لئے نہ اہل قرار پاے اور انکی جگہ اس حلقہ کے انتخاب میں بلال یسین 65 ہزار 946 سے زائد ووٹ لے کر کامیاب رہے جبکہ پیپلز پارٹی 24 ہزار ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہی پھر 2013 میں تحریک انصاف ایک بڑی پارٹی بن کر انتخابات میں منظر عام پر آئی 2013 میں اس حلقہ میں مسلم لیگ (ن )سے میاں نواز شریف 91 ہزار 683 سے زائد ووٹ لے کر کامیاب ہوے جبکہ تحریک انصاف کی ڈاکٹر یاسمین راشد 52 ہزار 354 ووٹ لے دوسرے نمبر پر رہیں اور 2013 میں حلقہ NA_120 پیپلز پارٹی نے صرف 2 ہزار 605 ووٹ حاصل کیے۔2017 یعنی موجودہ انتخابات میں بھی مسلم لیگ کی طرف سے سابق وزیر اعظم کی اہلیہ کلثوم نواز نے تحریک انصاف کی ڈاکٹر یاسمین راشد کو شکست دے کر انتخابی معرکہ سر کر لیا۔البتہ اس دفعہ یہ مقابلہ کافی پیچیدہ رہا کلثوم نواز نے غیر سرکاری نتائج کے مطابق تقریباً 61 ہزار 745 ووٹ حاصل کیے جبکہ ڈاکٹر یاسمین نے 47 ہزار 99 ووٹ حاصل کیے اور اس کے ساتھ تقریباً 1 ہزار 731 ووٹ مسترد ہوے لہذا یہ تمام تر صورتحال اور ماضی کو مد نظر رکھتے ہوے کہا جا سکتا ہے مسلم لیگ(ن) 2018 کے انتخابات میں بھی خاصی سر گرم رہے گی۔