تحریر : عماد ظفر قوموں اور معاشروں کا مزاج انفرادی رویوں اور ذہنی و فکری رجحانات سے بنا کرتا ہے ۔ہمارے رویے باہم ہو کر معاشرتی اور قومی ہو جاتے ہیں اور یہی بات طرز فکر اور زہنی رجحانات پر بھی صادق آتی ہے زندگی کی جنگ میں مصروف ہم لوگ اگر تھوڑا سا جائز اپنے آپ کا لیں تو ہمیں ادراک ہو گا کہ ہم ایک جلد باز اور مداریوں کے کرتب پر خوش ہو کر تالیاں بجانے والا معاشرہ بننتے جا رہے ہیں ۔ ہمہمیں ایک ایسا معاشرہ نتے جا ہے ہیں جو عجلت میں ہر کام آنا فانا ہوتا دیکھنا چاُتے ہیں .ہمیں زندگی کی ہر سہولت فورا چاہیے بھلے ہی ہم اسکو ڈیزرو کرتے ہوں یا نہ ہوں ۔انفرادی ترقی سے لیکر ملک کی اجتماعی ترقی ہمیں فورا چاہیے ۔بھلے ہی ہم اسکے لیے اپنا اپنا فرض ادا کریں یا نہ کرہں۔
ملکی ترقی یا معاشرے کی ترقی میں بطور شہری ہر فرد کا ایک ذاتی کردار ہوتا ہے اور کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں. ہم بطور شہری اپنا کوئی فریضہ ٹھیک سے انجام نہیں دیتے لیکن حکمرانوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ تمام فرائض ٹھیک سے انجام دیں. انکم ٹیکس ہم لوگ فایل نھیں کرتے لیکن ریاست سے بالکل یورپی ممالک جیسے سوشل بینیفٹس چاہتے ہیں۔ ہم میں سے جسکا جہاں بس چلتا ہے اپنے بھآئی یا رشتہ دار کو جاب دلوانے کیلئے یا کاروبار میں مواقع دلوانے کیلئے تگڑی سے تگڑی سفارش لگاتے ہیں لیکن حکمرانوں سے توقع کرتے ہیں کہ وہ میرٹ کا بھرپور خیال کریں گے۔
بزنس کرتے وقت اپنے فائدے کیلیے ہر طرح کے حربے استعمال کرتے ہیں لیکن حکمرانوں سے توقع کہ وہ کوئی کرپشن نہیں کریں گے ۔بجلی کی لوڈشیڈنگ پر خوب دہایاں دہتے ہیں لیکن میٹر ریڈر کے ساتھ ملکر جس حد تک ممکن ہو خوب بجلی چوری کرتے ہیں ۔منافع خوری کرتے ہیں لیکن دوسروں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ منافع خوری نہیں کریں گے ۔نجی محفلوں سے لیکر میڈیا تک یورپ اور امریکہ کو جی بھر کے کوستے ہیں اور انھیں اپنی تباہی کا زمہ دار ٹھہراتے ہیں لیکن ہر صبح قطاریں بنا کر انھی ممالک کی ایمبیسیز کے آگے پورا پورا دن ویزے کی درخواستیں دیتے نظر آتے ہیں۔
Rights
اقلیتوں کو خود کوئی حقوق نہیں دیتے ان کو بھیڑ بکریاں سمجھ کر دباتے ہی چلے جاتے ہیں لیکن باہر کے ممالک جاتے ہی اپنے لیے سارے حقوق مانگتے ہیں ۔سیاستدانوں کو جی بھر کے برا بھلا کہتے ہیں لیکن جونھی موقع ملے تو انکے ساتھ صرف ایک تصویر بنوا کر یا مصافحہ کر کے خوش ہو جاتے ہیں ۔ آرٹ اور موسیقی کو حرام قرار دیتے ہیں لیکن کوئی شام یا کوی جگہ ایسی نہیں جہاں ان دونوں آرٹ کی اصناف سے لطف اندوز نہ ہوتے ہوں ۔۔دوسروں کی ایجادات اور ریسرچ کو کمال ڈھٹای سے اپنا بنانے پر مصروف رہتے ہیں اور جو بھی نئی ایجاد ہو اسے اپنے ماضی کے دور کے گزرے بزرگوں کے خیالات کا تسلسل ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں۔
اپنے ملک میں بچے پولیو اور دیگر بیماریوں سے مر جائیں یا لوگ افلاس سے لیکن ہمیں دوسرے ممالک کے حالات کی فکر کھائے رہتی ہے.اپنےمکان اور عمارات تک کی تعمیر میں سریے سے لیکر بجری تک سستی سے سستی اور غیر معیاری ڈلواتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ سب ٹھیک ہو گا ۔بقول کاؤس جی سیمنٹ اور بجری ملاوٹ والی استعمال کر کے عمارات تعمیر کر دیتے ہیں ہیں اور پھر ماشااللہ کا بورڈ لگا کر سمجھتے ہیں کہ اب ہمیں خدا بچاے گا ۔روئے زمین پر بسنے والی تمام دوسرے مذاہب کی قوموں سے نفرت کرتے ہیں لیکن امید کرتے ہیں کہ ساری دنیا ہمیں پیار محبت اور برابری کی بنیاد پر دیکھے۔
گھروں کے ڈراینگ رومز میں بیٹھ کر گھنٹوں ملکی مسائل کا رونا رہتے ہیں لیکن عملی طور پر اپنی گلی یا محلے کا بھی کوی کام کرنے ہرگز آگے نھیں آتے ۔پٹوار سے لیکر پولیس تک کوئی کام پڑے تو اپنا اثرو رسوخ اور پیسہ استعمال کرتے ہیں لیکن حکمرانوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اختیارات کا ناجائز استعمال نھیں کریں گے ۔۔اپنی اپنی دنیا کی فکر میں تگ و دود کرتے ہیں لیکن دوسروں کی آخرت کی فکر کے معاملے پر گھنٹوں بلا تہمید بھاشن دیتے نظر آتے ہیں. جدید تحقیق اور علم سے کوئی رشتہ نہیں جوڑتے لیکن خود کو اقوام عالم میں اول اور ذہین ترین تصور کرتے ہیں۔ساہنسی ایجادات دریافت کرنے کے بجائے گزشتہ اور ہونے والی ایجادات کو اپنے سے جوڑنے پر وقت اور پیسے کا ضیاع کرتے ہیں۔
Extremism
عقل و دلائل کے استعمال کے بجائے جذبات اور شدت پسندی کا راستہ اختیار کرتے ہیں اپنی بات منوانے کیلیے ہر قسم کی شدت پسندی اختیار کرتے ہیں لیکن اقوام عالم سے تقاضہ کرتے ہیں کہ ہمیں پرامن قوم و معاشرہ مانے ۔خود ہمہ وقت دوسری قوموں کو نیست و نابود کرنے کی دعائیں مانگتے ہیں لیکن دوسری قوموں سے گلہ کرتے ہیں کہ وہ ہمیں تباہ کرنا چاہتی ہیں. انٹرنیٹ پر جنسی سرچ کے حوالے سے دنیا میں پہلے نمبر پر آتے ہیں لیکن امریکہ و یورپ کو بے حیائی اور عریانی کا منبع قرار دیتے ہیں ۔۔ ٹریفک کی لال بتی کو توڑ کر سینہ پھلاتے ہیں لیکن حکمرانوں اور باقی اشرافیہ سے توقع کرتے ہیں کہ وہ قانون کی پوری پابندی کریں گے ۔ کاروکاری وٹہ سٹہ اور غیرت کے نام پر خواتین کا قتل جیسی روایات پر عمل کرتے ہیں اور یورپ امریکہ کو خواتین کی عزت و احترام کا لیکچر دیتے نظر آتے ہیں۔
بچوں کے دودھ سے لیکر پانی تک اور کپڑوں سے لیکر گاڑی تک کوشش کرتے ہیں کہ فارن میڈ ہوں لیکن ہمہ وقت حب الوطنی اور میڈ ان پاکستان کے نعرے مارتے دکھائی دیتے ہیں. ذات پات برادری کے نام پر شادیاں کرتے ہیں اور ووٹ دیتے ہیں اور دوسرے معاشروں کو ذات پات کے تعصب کا شکار قرار دیتے ہیں. امریکہ و یورپ سے آئی امداد اور قرضوں کو خوشی خوشی ہڑپ کر کے اور خیرات میں اسلحہ لے کر سینہ پھلاتے ہیں اور پھر انہی اقوام کے خلاف نعرے مارتے ہیں.۔غرض زندگی کا کوئی بھی شعبہ یا عمل دیکھ لیجیے آپکو اپنے تضادات خود نظر آنا شروع ہو جاہیں گے اور یہ رویے ہمیں ایسے ہی ایک حبس زدہ اور گھٹن والے معاشرے میں قید رکھیں گے ہم اسی تہزیبی نرگسیت اور ڈبل اسٹینڈرز کے شکار رہیں گے۔
Development
زرا سی دیر کو سوچیے کہیں آپ بھی تو ایسے رویوں کا شکار تو نہیں ہیں اور اگر اس کا جواب ہاں میں ہے تو بدلیے ان افکار اور رویوں کو کہ اجتماعی تبدیلی یا ترقی انفرادی سطح پر خود کو بتفریج تبدیل کرنے کا عمل ہے اور بقول علامہ اقبال خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی ۔۔نہ ہو جسکو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا ۔۔جس دن میں اور آپ ان منافقانہ رویوں سے نجات پا لیں گے ہمارا معاشرہ اسی دن ترقی کی راہ پر گامزن ہو جاے گا۔