بیلاروس (اصل میڈیا ڈیسک) مشرقی یورپی ملک بیلاروس کے صدر الیکسانڈر لوکاشینکو کو بظاہر اپنے قتل کا خدشہ ہے اور انہوں نے ایک صدارتی حکم نامے پر دستخط بھی کر دیے ہیں، جس کے تحت ان کی موت کے بعد صدارتی اختیارات ایک سلامتی کونسل کو منتقل ہو جائیں گے۔
سابق سوویت یونین کی جمہوریہ بیلاروس کے سرکاری خبر رساں ادارے بیلٹا نے بتایا کہ اگر صدر لوکاشینکو کسی دوسری وجہ سے بھی اپنے فرائض انجام دینے کے قابل نا رہے، تو بھی ان کے اختیارات ملکی سکیورٹی کونسل کو منتقل ہو جائیں گے۔
اس سے قبل اس یورپی ملک میں نافذ قانون یہ تھا کہ اگر صدر کا انتقال ہو جائے یا وہ اپنے فرائض انجام دینے کے قابل نا رہیں، تو ان کے اختیارات کی وزیر اعظم کو منتقلی لازمی تھی۔
ایسی صورت میں وزیر اعظم کو نئے صدر کی حلف برداری تک صدارتی فرائض بھی انجام دینا ہوتے تھے۔ اب لیکن دارالحکومت منسک میں صدر لوکاشینکو کی طرف سے جاری کردہ حکم نامے کے بعد صورت حال بدل گئی ہے۔
صدر لوکاشینکو نے ابھی گزشتہ ماہ ہی کہا تھا کہ وہ بیلاروس میں اقتدار کا ڈھانچہ تبدیل کر دینا چاہتے ہیں۔ اس تناظر میں انہوں نے ہفتے کی شام جس صدارتی فرمان پر دستخط کر دیے، وہ دراصل ملک میں اختیارات کی ہنگامی منتقلی کے قانون میں تبدیلی کا عمل ہے۔
اپنے اس ارادے کا اظہار لوکاشینکو نے گزشتہ ماہ اپریل 1986ء میں چرنوبل کے ایٹمی حادثے سے متاثرہ ملکی علاقوں کے ایک دورے کے دوران صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا تھا۔
تب انہوں نے صحافیوں سے پوچھا تھا، ”آپ ہی بتائیے، کل اگر صدر نا رہے، تو اس کی ضمانت کون دے گا کہ ملک میں سب کچھ معمول کے مطابق اور ٹھیک ٹھاک ہی رہے گا؟ کوئی بھی نہیں!‘‘
تب اپنے اس سوال کا خود ہی جواب دیتے ہوئے لوکاشینکو نے کہا تھا، ”میں ایک صدارتی فرمان جاری کروں گا، اس بارے میں کہ ملک میں اقتدار کا ڈھانچہ اور اختیارات کی منتقلی کے نظام کیسے ہوں گے۔ اگر کسی دن صدر کو گولی مار دی جائے، تو اختیارات سکیورٹی کونسل کو منتقل ہو جائیں گے۔‘‘
صدارتی فرمان کے مطابق اس سلامتی کونسل کی سربراہی ملکی وزیر اعظم کریں گے۔
بیلاروس کے صدر لوکاشینکو کی عمر اس وقت 66 برس ہے اور وہ 1994ء سے اس ملک پر حکومت کر رہے ہیں۔
وہ گزشتہ برس اگست میں ہونے والے صدارتی الیکشن میں اس عہدے پر دوبارہ منتخب کر لیے گئے تھے۔
ان انتخابات کی شفافیت پر تاہم ملکی اپوزیشن اور بیرونی دنیا دونوں کی طرف سے کئی سوالات اٹھائے گئے تھے۔
گزشتہ برس لوکاشینکو کے دوبارہ انتخاب کے بعد ملک میں احتجایی مظاہرے بھی شروع ہو گئے تھے اور مظاہرین ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرنے لگے تھے۔ مگر حکومت نے ان مظاہروں کو طاقت کا استعمال کرتے ہوئے کچل دیا تھا۔ تب اپنے استعفے کے مطالبات کے حوالے سے صدر لوکاشینکو نے کہا تھا کہ وہ صرف اسی وقت اپنے عہدے سے دستبردار ہوں گے جب ملک میں کوئی احتجاجی مظاہرے نا ہو رہے ہوں اور کوئی ‘انقلابی سرگرمیاں‘ بھی جاری نا ہوں۔