بیلاروس (اصل میڈیا ڈیسک) عینی شاہدین کے مطابق ماریہ کولیسنیکووا کو گزشتہ روز کچھ ماسک پہنے افراد زبردستی گاڑی میں ڈال کر لے گئے تھے۔
سرکاری میڈیا کے مطابق انہیں منگل کی صبح یوکرائن کے بارڈر کے قریب سے حراست میں لیا گیا۔
ماریہ کولیسنیکووا اپوزیشن کی ان تین خاتون رہنماؤں میں شامل ہیں، جنہوں نے مل کر صدر الیگسانڈر لوکاشینکو کے خلاف نو اگست کے صدارتی الیکشن میں حصہ لیا تھا۔
ماریہ کولیسنیکووا گزشتہ روز سے ‘لاپتہ‘ تھیں اور تب سے ان کے قریبی ساتھیوں کا ان سے کوئی رابطہ نہیں۔
مشرقی یورپ کے ملک بیلاروس میں ایک ماہ سے مبینہ انتخابی دھاندلی کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ صدر لوکاشینکو سن 1994 سے اس سابق سوویت ریاست کے حاکم رہے ہیں۔ ان کے 26 سالہ دور اقتدار کو یورپ کی ‘آخری آمریت‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
بیلاروس میں حزب اختلاف کی اپوزیشن کورڈینیشن کونسل کے مطابق گزشتہ روز ماریہ کولیسنیکووا کے ساتھ ان کے اسٹاف میں شامل ان کے پریس سکریٹری اور ایگزیکٹو سکریٹری بھی اٹھا لیے گئے تھے لیکن بعدازاں پتا چلا کہ یہ دونوں حضرات یوکرائن پہنچ چکے ہیں۔
بیلاروس بارڈر کے ایک اہلکار نے بتایا کہ منگل کو دونوں حضرات سرحد پار کر کے یوکرائن چلےگئے۔ یوکرائن میں اہلکاروں نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں افراد کو بارڈر عبور کرنے کے بعد تحویل میں لے لیا گیا ہے۔
اس سے قبل بعض اطلاعات تھیں کہ ماریہ کولیسنیکووا بھی بیلاروس سے یوکرائن جا پہنچی ہیں۔ ابھی یہ واضح نہیں کہ ان کے دو ساتھی کیسے یوکرائن پہنچنے میں کامیاب ہو گئے جبکہ انہیں بیلاروس میں گرفتار کر لیا گیا۔
منسک میں ڈی ڈبلیو کے نامہ نگار نِک کونلی کا کہنا ہے کہ بظاہر یہ لگتا ہے کہ حکومت سیاسی مخالفین کو دو آپشن دے رہی ہے: یا تو وہ ملک سے نکل جائیں، ورنہ جیل جانے کے لیے تیار رہیں۔
نو اگست کے متنازعہ انتخابات کے بعد بیلاروس میں چار ہفتوں سے حکومت کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔
دو روز قبل اتوار چھ ستمبر کے دن بھی دسیوں ہزار لوگوں نے دارلحکومت منسک کی سڑکوں پر احتجاج اور نئے انتخابات کا مطالبہ کیا۔ حکام کے مطابق اس موقع پر کم از کم چھ سو لوگوں کو حراست میں لیا گیا۔
یورپی یونین نے حکومت کو متنبہ کر رکھا ہے کہ سیاسی مخالفین کو فوری طور پر رہا کیا جائے ورنہ حکام مزید پابندیوں کے لیے تیار رہیں۔ اپوزیشن رہنماؤں اور یورپی یونین کا کہنا ہے کہ حکومت مظاہرے کچلنے کے لیے گرفتاریوں، دھمکیوں اور تشدد کا سہارا لے رہی ہے۔
تاہم صدر لوکاشینکو کا موقف ہے کہ بعض بیرونی طاقتیں ان کے ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ روس کے صدر ولادیمیر پوٹن صدر لوکاشینکو کے بڑے اتحادی ہیں اور انہوں نے بیلاروس کو اپنی مکمل فوجی حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے۔