اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ نے 2009ء میں دائر کی گئی ایک پٹیشن کو سماعت کے لیے منظور کرلیا، جس میں بنگلہ دیش میں محصور لگ بھگ دو لاکھ سینتس ہزار پاکستانیوں کی وطن واپسی کے لیے درخواست کی گئی تھی۔
پٹیشن ایڈوکیٹ راشد الحق قاضی نے محصور پاکستانیوں کی وطن واپسی کی جنرل کمیٹی اور بنگلہ دیش میں محصور پاکستانیوں کی وطن واپسی کے لیے قائم تنظیم کے نمائندے کے طور پر دائر کی تھی۔
جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پٹیشن میں پیش کیے گئے مسائل کا جواب دینے کے لیے اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ کو ایک نوٹس جاری کیا ہے۔جب یہ پٹیشن دائر کی گئی تھی، اس وقت کورٹ آفس نے اس کو اس تجویز کے ساتھ واپس کردیا تھا کہ درخواست گزار کو مناسب فورم سے رجوع کرنا چاہیٔے درخواست گزار نے اس فیصلے کو چیلنج کردیا تھا، اور چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے پندرہ اپریل کو یہ حکم جاری کیا کہ اس معاملے کی سماعت جسٹس ناصر الملک کی بینچ کرے گی۔
منگل کو اس مقدمے کی سماعت دوران ایڈوکیٹ راشد الحق قاضی نے دلیل دی کہ بنگلہ دیش میں محصور پاکستانی اپنی پیدائش کے لحاظ سے یا نسلی طور پر پاکستان کے شہری ہیں، اور پاکستان کی تقسیم اور بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے بعد دونوں ملکوں کی حکومتوں نے یہ طے کیا تھا کہ بنگلہ دیش سے اردو زبان بولنے والے پاکستانیوں کو پاکستان اور پاکستان سے بنگالی بولنے والوں کو بنگلہ دیش بھیج دیا جائے گا۔
لہٰذا محصور پاکستانیوں کو پاکستان واپس لایا جانا چاہیٔے۔انہوں نے مزید کہا کہ آئین و قانون کے تحت حکومت کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان محصور پاکستانیوں کی وطن واپسی کے معاملے کو لٹکا کر رکھے۔ درخواست گزار نے دلیل دیتے ہوئے کہا کہ حکومت 19 اپریل 1974ء کے سہ فریقی معاہدے کے تحت اس بات کی پابند ہے کہ وہ محصور خاندانوں کو وطن واپس لے کر آئے۔ یہ معاہدہ ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان برصغیر میں تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے کیاگیا تھا۔
پاکستان کی جانب سے اس معاہدے پر جزوی طور پر عمل کرتے ہوئے نواز شریف کے پچھلے دورِحکومت کے دوران تین سو پچیس محصور پاکستانیوں کو دس جنوری 1993ء میں وطن واپس لا کر پنجاب کے شہروں میاں چنّوں اور مظفر نگر میں بسایا گیا تھا۔