ملک پاکستان میں برسر اقتدار کوئی بھی پارٹی ہو قانون سازی افہام تفہیم سے کرنے کا حق رکھتی ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ کسی ضرورت کے تحت بعض مذہبی اور بعض سیاسی قسم کی رفاہ عامہ کے لیے قانون سازیاں ہوتی رہتی ہے۔وطن عزیزکی تاریخ میں ایک قانون سازی ایسی ہوئی ہے کہ جس کی وجہ سے مسلمانوں کا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔ وہ عظیم کارنامہ 7ستمبر 1974ء کو عقیدہ ختم نبوت ۖ کو مکمل قرآن و حدیث کی روشنی میں آئین پاکستان میں شامل کر دیا گیااور جس کی وجہ سے جو بھی عقیدہ ختم نبوت کا منکر ہو ، پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی تسلیم نہ کرتا ہو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہونے کا سرٹیفکیٹ حاصل کر چکا۔اس آئین کے تحت عقیدہ ختم نبوت کے منکر مرزا غلام احمد قادیانی کے ماننے والے غیر مسلم اور دائرہ اسلام سے خارج قرار پائے۔ وہ اس لیے کہ پیارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری نبی ہونا کثیر احادیث سے ثابت ہے۔ ان احادیث میں سے چند ایک پیش خدمت ہیںکہ جن کو پڑھ کر ایک باشعور انسان اس نتیجے پر پہنچے گا کہ واقعی عقیدہ ختم نبوت کا منکر دائر اسلام سے خارج ہے۔ تو لیجئے ملاحظہ فرمائیں:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص نے بہت ہی حسین و جمیل محل بنایا مگر اس کے کسی کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی، لوگ اس کے گرد گھومنے اور اس پر عش عش کرنے لگے اور یہ کہنے لگے کہ یہ ایک اینٹ کیوں نہ لگادی گئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں وہی (کونے کی آخری) اینٹ ہوں اور میں نبیوں کو ختم کرنے والا ہوں۔” (صحیح بخاری، صحیح مسلم)
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا ”تم مجھ سے وہی نسبت رکھتے ہو جو ہارون کو موسیٰ سے تھی مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔” حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بنی اسرائیل کی قیادت خود ان کے انبیاء کیا کرتے تھے ،جب کسی نبی کی وفات ہوتی تو ان کی جگہ دوسرا نبی آجاتا تھا لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں، البتہ میرے بعد خلفاء ہوں گے۔” (صحیح بخاری)
حضرت جبیربن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے خود سنا ہے: ”میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں ماحی ہوں کہ میرے ذریعے کفر مٹایا جائے گا، میں حاشر ہوں کہ میرے بعد لوگ حشر میں جمع کیے جائیں گے اور میں عاقب ہوں اور عاقب وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو”۔ (بخاری و مسلم) ،حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے چھ چیزوں میں انبیاء کرام علیہم السلام پر فضیلت دی گئی ہے: (١) مجھے جامع کلمات عطا کیے گئے(٢) رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی (٣)مال غنیمت میرے لیے حلال کردیا گیا ہے (٤)روئے زمین کو میرے لیے مسجد بنادیا گیا ہے (٥) مجھے تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا ہے (٦) اورمجھ پرنبیوں کا سلسلہ ختم کردیا گیا ہے۔” (صحیح مسلم)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم لوگ سب کے بعد آئے اور قیامت کے دن سب سے آگے ہوں گے، صرف اتنا ہوا کہ ان کو کتاب ہم سے پہلے دی گئی ہے۔” (بخاری و مسلم)حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہوتے”۔ (ترمذی ) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رسالت و نبوت ختم ہوچکی ہے، پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہے اور نہ نبی۔” (ترمذی،مسند احمد)
ان جیسی کثیر تعداد میں احادیث موجود ہیں جن سے روز روشن کی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی ہیں آپ کے بعد کوئی نبی نہیں اور جو نبوت کا دعوی کرے وہ لعین بدبخت اوردائر اسلام سے خارج ہے۔ آپۖ کے بعد انبیاء کرام علیہم السلام کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے بند ہوگیاہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو شریعت ، رشد و ہدایت نازل کی گئی وہ ابدی ہے۔وہ دین اسلام ہے اور مکمل ضابطہ حیات ہے ۔اس کی اتباع میں ہی دنیا و آخرت میں کامیابی کی ضمانت ہے۔