تحریر : واٹسن سلیم گل عقیدہ ختم نبوت کے حوالے سے بھہت کچھ لکھا جاتا ہے ، لکھا جائے گا اور لکھا جانا چاہے ۔ دنیا کا ہر ایک مسلمان حضرت محمد کو آخری نبی مانتا ہے اور اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ حضرت محمد خاتم الانمبیا ہیں ۔ اور ان کے بعد کوئ نبی نہی ہے۔ میں ایک مسیحی ہوں مگر اسلامی تاریخ کے طالب علم کی حثیت سے میں نے بھی قرآن اور احادیث کا مطالحہ کیا ہے ۔ جیسے کہ سورۃ الحزاب کی آیت 40 میں بہت صاف لکھا ہے کہ حضرت محمد ہی آخری نبی ہیں۔ اور ان کے بعد کوئ نبی نہی آئے گا ۔ اس پر تمام دنیا کے مسلمان ، فرقے اور مسالک ایمان رکھتے ہیں ۔ اور یہ مانتے ہیں کہ حضرت محمد کے بعد اب کوئ نبی نہی آئے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ میں تو ایک مسیحی ہوں تو میں کیوں اس حوالے سے بات کر رہا ہوں۔ جیسے کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اگر دنیا کہ تمام مسلمان ختم نبوت پر ایمان رکھتے ہیں تو پھر اس عقیدے کا کیا مقصد؟ ۔ یا پھر عقیدہ ختم نبوت کا قیام ، اس حوالوں سے جلسے، مٹینگز، اور دیگر اجتماعات کا کیا جواز ہے۔ اگر غور سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ایک جماعت جو اپنے آپ کو مسلمان کہتی ہے
اپنے آپ کو حضرت محمد کا غلام ہونے کا دعوا کرتی ہے ۔ وہ دراصل ختم نبوت کے بنیادی عقیدے سے سراسر انکار کرتی ہے ، بلکہ دعوا کرتی ہے کہ ایک نبی تقریبا 170سال قبل آ چکے ہیں اور یہ کہ عقیدہ ختم نبوت کا مطلب یہ نہی ہے کہ حضرت محمد آخری نبی تھے۔ سوال جُوں کا تُوں کہ میں ایک مسیحی ہوں میں اس بحث میں کیا کر رہا ہوں۔ تو میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جو جماعت مسلمان ہونے کا دعوا کر کے اسلام کے بنیادی عقیدے کو غلط قرار دینے کی ناکام کوشش کرتی ہے وہی جماعت مسیح ابن مریم کے حوالے سے انتہائ جھوٹا اور غلط پروپیگینڈہ کر کے معصوم لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اور ایک مسیحی ہوتے ہوئے میرا بھی فرض ہے کہ اس جماعت کے جھوٹے اور گمراہ کن دعوے کو غلط ثابت کروں۔ اس کے لئے میں نے اس جماعت کے حوالے سے تحقیق اور تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور حیرت انگیز سچائ میرے سامنے آئ ہے۔
اس جماعت کے بانی اور مسیح ابن مریم ہونے کا جھوٹا دعوا کرنے والے صاحب نے اپنی کتاب ” مسیح ہندوستان میں” میں دعوا کیا کہ میسح ابن مریم کو صلیب سے زخمی حالت میں اتارا گیا ان کا علاج کیا گیا اور پھر وہ ہندوستان فرار ہو گئے ۔ وہ اپنی کتاب میں اس دعوے کو چار ابواب میں ثابت کرنے کا دعوا کرتے ہیں (1) انجیل سے (2) قرآن سے (3) قرائن اور طبئ کتب سے (4) تاریخی کتب اور منطقی دلائل سے ۔ اس کے علاوہ اسی کتاب کے حوالے سے دعوا کرتے ہیں کہ جو کوئ بھی اس کتاب کو ایک بار پڑھے گا وہ اس بات کا قائل ہو جائے گا کہ مسیح ابن مریم ہندوستان فرار ہو گئے اور وہاں 120 سال کی عمر میں وفات پائ ۔ میں نے تین بار اس کتاب کو پڑھ کر اس دعوے کا غلط ثابت کر دیا۔ کیوںکہ میں قائل نہی ہوا۔ حیرت انگیز طور پر اس 107 صفحات کی کتاب میں ایک بھی دعوا سچا نہی ہے۔
Holy Quran
شاید یہ کہنا آسان ہے کہ ان کے دعوے غلط ہیں ۔ مگر میں نے ان کے دعواؤں کو غلط ثابت کرنے کے لئے ان کی جماعت سے ہر سطح پر رابطہ کیا کہ میں ان کو چیلنج دیتا ہوں کہ ان کو غلط ثابت کرونگا۔ ویسے تو مسیح ابن مریم کے حوالے سے ان کے اس دعوے کو قرآن شریف کی ایک سورۃ النسا آیت157 ہی ( وما قتلوہ وما صلبوہ ) کافی ہے ۔ جس نے اس دعوے کی دھجیاں اڑا دی ہیں ۔ اس کے علاوہ تاریخی غلطیوں سے بھرا ہوا یہ دعوا جس پر یہ جماعت سرعام مناظرے سے آنکھ چراتی ہے ۔ میں نے ان کو کئ ای میل بیجھیں ، ان کے ٹی وی چینل پر فون کئے۔ انہوں نے مجھے جواب بھی دیا جو کہ ان کے چینل پر آن ائر ہوا اور انہوں نے یوٹوب پر بھی اپ لوڈ کیا مگر نہ میری بات کو اچھی طرح سُنا اور نہ ہی تسلی بخش جواب دیا۔ پہلے تو میں ان سے درخواست کرتا رہا کہ مجھے بھی موقع دیا جائے کہ میں بھی اپنا موقف پیش کروں۔ چند ہفتوں بعد مجھے فون کیا کہ آج بات کرسکتا ہوں۔ مگر مجھے بات کرنے کے بجائے بات سُننے کے لئے فون پر لیا ۔ آخر میں مجھے ایک سوال کا موقع ملا۔
میں نے سوال کیا کہ مسیح ابن مریم کے زمانے میں تو کشمیر کے علاقے میں سنسکرت زبان بولی اور لکھی جاتی تھی۔ تو پھر مسیح ابن مریم کے مبینہ مزار پر فارسی کتبے اور معالومات کا کیا مطلب ہے۔ جبکہ فارسی زبان تو مغل بادشاہوں کے زمانے میں وہاں پہنچی۔ اور سب سے پہلی کشمیر کی تاریخ کا فارسی زبان کا ترجمہ (تاریخ فرشتہ) کے نام سے چودھویں صدی میں ہوا جو تُزک بابری کا حصہ بنا ۔ اس سوال کا بے تُکا جواب ان کے یوٹیوب چینل پر آج بھی موجود ہے۔ اسکے بعد بڑی مشکل سے ان کے ایک عالم دین نے میرا چیلنج قبول کیا ۔ میں نے ان کو تجویز پیش کی چند مسلمان دوست بھی مناظرے کے وقت موجود ہونے چاہئے۔ مگر انہوں نے کہا کہ اگر میں ان سے مناظرہ کرنا چاہتا ہوں تو میرے اور ان کے علاوہ کوئ تیسرا شخص نہی ہونا چاہے۔ اس مناظرے میں بھی موصوف عالم دین اور اس جماعت کے ریڈیو پروگرام کے میزبان کوئ تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ یہ بند کمرے میں مناظرے کرتے ہیں تا کہ وہ مصعوم لوگ جو ان کی جماعت کا حصہ ہیں وہ سچائ نہ جان لیں۔
مزکورہ جماعت دعوا کرتی ہیں کہ ہندوستان کے کسی پہاڑ پر مسیح ابن مریم کی ملاقات کسی بادشاہ سے ہوئ۔ مگر بادشاہ کا نام نہی معلوم ہے۔ ان کے دعوے کے مطابق سب سے زیادہ مضبوط ثبوت علم طعبیات کی کتب ہیں۔ جو مرہم عیسی کا زکر کرتیں ہیں۔ مگر حیرت انگیز طور پر جن کتابوں کا یہ حوالہ دیتے ہیں ان میں سے سب سے قریب ترین کتاب بھی مسیح ابن مریم کے زمانے سے ایک ہزار سال بعد لکھی گئ۔ اس کتاب کو پڑھ کر ہنسی آتی ہے۔ صفحہ نمبر 103 پر دعوا کیا گیا ہے کہ افغانستان کو نام افغانستان اس لئے رکھا گیا کہ اسرائیلی وہاں پہنچ کر آہ و فغان کرتے اور روتے تھے۔ اس لئے اس کا نام افغانستان میں آج بھی اس جماعت کو چیلنج کرتا ہوں کہ اوپن مناظرہ کیا جائے۔ جس میں مختلف مزاہب کے لوگ غیر جانبدار مبصرین کے طور پر شریک ہوں۔