تحریر : محمد آصف اقبال معاملہ چاہے فرد کا ہو یا سماج کا ہر دو سطح پر منصوبوںپر عمل درآمد ضروری ہے۔برخلاف اس کے عموماً دیکھنے میں یہی آتا ہے کہ منصوبے اور پروگرام بناتے وقت حد درجہ محنت ،صلاحیتیں اور وسائل کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن جب مرحلہ عمل درآمد کا آتاہے تو یہ منصوبے اورپروگرام دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور اہداف وہ حاصل نہیں ہوتے جو مطلوب ہیں۔دوسری جانب ترقی و خوشحالی اور عدل و قسط کا قیام ہر شخص کی خواہش ہے۔یہ خواہش بااقتدار افراد کی بھی ہے اور ان شہریوں کی بھی جو ملک عزیز سے تعلق رکھتے ہیں۔اس کے باوجود اگر اُن چیزوں پر گرفت نہ کی جائے جو ترقی و خوشحالی اور عدل و قسط کے قیام میں رکاوٹ بننے والی ہیں تو پھر یہ خواہش صرف خواہش ہی بن کر اپنی موت آپ مرجاتی ہے۔خصوصاً ان حالات میں جبکہ برسراقتدار افراد خواہش کے باوجودرکاوٹوں پر گرفت کرتے نہ نظر آئیں۔ اور یہ معاملہ تشویناک اس وقت بن جاتا ہے جبکہ ترقی و خوشحالی اور عدل و قسط کے قیام میں متعلقہ افراد و گروہ مزاحمت بننے لگیں۔
باالفاظ دیگر خوشحالی وترقی میں اور عدل و قسط کے قیام میں مسائل کھل کر سامنے آنے لگیں۔پھر یہ مسائل اثر و رسوخ کی بنیاد پر پیدا کیے جائیں یا ان قوانین کو نظر انداز کرتے ہوئے جنہیں نظر انداز کرنے کے نتیجہ میں مزید مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ فی الوقت خوشحالی و ترقی اور عدل و قسط کے قیام کے تعلق سے دو اہم خبروں کو ہم آپ کے سامنے لانا چاہتے ہیں۔پہلا معاملہ ممبئی شہر کا ہے جہاں زہریلی شراب پینے سے بڑی تعدادمیں لوگ ہلاک ہوئے ہیں ۔وہیں دوسرا معاملہ مالیگائوں سے متعلق ہے جہاں ہندو شدت پسندوں کے خلاف مقدمہ کو کمزور کرنے کے لیے دبائو ڈالے جانے کا واقعہ سامنے آیا ہے۔آپ جانتے ہیں کہ اکتوبر2012ء میں سپریم کورٹ آف انڈیا نے مالیگائوں بم دھماکے کے ملزمان سابق فوجی افسر کرنل پروہت اور سادھوی پرگیہ ٹھاکر کی ضمانت کی درخواست مسترد کردی تھی۔
سابق ہندوستانی فوجی شری کانت پرساد پروہت، سادھوی پرگیہ ٹھاکر اور بعض دیگر ہندو شدت پسند سن دو ہزار آٹھ کے مالیگائوں بم دھماکے کے الزام میں گرفتار کیے گئے تھے۔اس وقت دو رکنی کورٹ بینچ نے ان کی ضمانت مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم اس اسٹیج پر عارضی ضمانت نہیں دیں گے۔معاملہ /29ستمبر 2008 کا ہے جب مہاراشٹر کے صنعتی شہر مالیگائوں میں عید سے ایک روز قبل بھکو چوک میں بم دھماکہ ہوا تھا۔جس میں سات افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔پولیس نے پہلی مرتبہ بم دھماکوں میں ہندو دہشت گرد تنظیموں کے ملوث ہونے کو بے نقاب کیا تھا اور گیارہ افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔اس میں سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر، لیفٹننٹ کرنل پروہت،شارداپیٹھ کے سوامی دیانند پانڈے، رمیش اپادھیائے، راکیش دتاتریہ دھاواڑے،شیو نارائن کالسنگرا، سمیر کلکرنی، سدھاکر چتراویدی،شیام ساہوا، اجے راہیر کر اور جگدیش مہاترے شامل تھے۔
BJP
واقع کو گزرے ہوئے ایک عرصہ گزرگیا ہے۔اس کے باوجود یہ معاملہ ایک بار پھر سرخیوں میں اس وقت سامنے آیا جبکہ مہاراشٹر میں خصوصی سرکاری وکیل روھنی سالیان نے الزام لگایا کہ جب سے مرکز میں بی جے پی کی حکومت آئی ہے، قومی تفتیشی بیورواین آئی اے کی جانب سے اُن پر ہندو شدت پسندوں کے خلاف قائم ایک مقدمہ کمزور کرنے کے لیے دبائو ڈالا جا رہا ہے۔ روھنی سالیان2008ء میں ہونے والے مالیگائوں بم دھماکے کے مقدمے میں خصوصی سرکاری وکیل ہیں۔ان کا الزام ہے کہ پہلے گزشتہ برس حکومت کی تبدیلی کے بعد اور پھر12جون کو این آئی اے کا ایک افسر اُن سے ملنے آیا اور اُس نے کہا کہ وہ زیادہ شدت سے کیس نہ لڑیں۔اُن سے مبینہ طور پر یہ بھی کہا گیا کہ اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگ یہ نہیں چاہتے کہ وہ یہ مقدمہ لڑیں۔دوسری جانب این آئی اے نے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اس مقدمے کی ابھی باقاعدہ سماعت شروع ہی نہیں ہوئی ہے اور روھنی سالیان نے بظاہر یہ الزام اس لیے لگایا ہے کہ کیونکہ انہیں سرکاری وکیل کے عہدے سے ہٹانے کی کارروائی کی جا رہی تھی۔
وہیں شہری حقوق کے لیے کام کرنے والے سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل پرشانت بھوشن کا کہنا ہے کہ یہ واضح ہے کہ حکومت ہندو تنظیموں سے وابستہ تمام ملزمان کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ حکومت مذہب کی بنیاد پر کارروائی کر رہی ہے۔۔۔عدالت کو این آئی اے کے متعلقہ افسر کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔ساتھ ہی اس پورے معاملے پر سینیئر وکیل اور سابق ایڈیشنل سالیسٹر جنرل اندراجے سنگھ نے کہا ہے کہ اگر سرکاری وکلا کو اس طرح کی ہدایات دی جائیں گی تو پورا نظام عدل تباہ ہو جائے گا۔ این آئی اے ممبئی پر 2008ء کے حملوں کے بعد صرف بڑے واقعات کی تفتیش کے لیے قائم کی گئی تھی اور مبینہ ہندو شدت پسندوں کو بے نقاب کرنے میں اس نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔روھنی سالیان کے الزامات منظر عام پر آنے کے بعد کانگریس کے ترجمان نے کہا ہے کہ این آئی اے کے سربراہ کو فوراً ہٹایا جانا چاہیے
سپریم کورٹ یا بامبے ہائی کورٹ کو خود اس مقدمے کی نگرانی کرنی چاہیے۔ان تمام بیانات کے ساتھ ہی شدت پسندوں کے خلاف مقدمہ کمزور کرنے کے واقعہ نے اہل اقتدار پر سوالات کھڑے کیے ہیں۔سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا یہ واقعہ صحیح ہے؟یعنی روھنی سالیان کو متعلقہ مقدمہ کو کمزور کرنے کی بات کہی گئی تھی؟اور کیا یہ بات بھی صحیح ہے کہ بقول سینیئر وکیل پرشانت بھوشن ،حکومت ہندو تنظیموں سے وابستہ تمام ملزمان کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے؟اگر یہ باتیں صحیح نہیںہیں تو پھر یہ سوال بھی لازماً اٹھنا چاہیے کہ حکومت اُن افراد کے خلاف کیا کاروائی کر رہی ہے جنہوں نے یہ الزامات عائد کیے ہیں؟بصورت دیگر محسوس ایسا ہی ہوتا ہے کہ حکومت الزامات عائد کرنے والے افراد کے خلاف فی الوقت کوئی کاروائی نہیںکرنا چاہتی ہے۔جس کے نتیجہ میں الزامات کے درست ہونے کی بات کی تصدیق خود بہ خود ہوجاتی ہے۔
Rights
وہیں پرشانت بھوشن یا ان جیسے دیگر شہری حقوق کے علمبر داروں کی بات صحیح ٹھہرتی ہے ،جبکہ حکومت سماج میں انتشار پھیلانے ،نفرت و عداوت کا ماحول پروان چڑھانے اور مذہب کا سہارا لے کر سماج کو تقسیم کرانے والوں کے خلاف کارروائی کرتی نظر نہیں آتی۔لہذا ان حالات میں یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ عدل و قسط کا قیام عمل میں آئے نیزعدل و قسط کا قیام نہ ہونے کے نتیجہ میں اُن منصوبوں اور پروگراموں کی کوئی حیثیت نہیں ہے جنہیں بڑے فخر سے پیش کیا جاتا ہے۔ دوسری خبر بھی ریاست مہاراشٹر سے ہے۔معاملہ زہریلی شراب پینے سے ہلاک شدگان کا ہے۔یہ تعداد اب تک 100سے زائد ہوچکی ہے اور 50سے زیادہ افراد مختلف ہسپتالوں میں زیر علا ج ہیں۔بیشتر افراد کا تعلق ملاڈ کے علاقے مال ونی اور لکشمی نگر کی کچی آبادیوں سے ہے۔واقعہ جمعرات کی شام اس وقت پیش آیا جب یہ افراد بارش کے خوشگوار موسم میں لطف اندوز ہونے کے لیے ممبئی کے نواحی علاقے ملاڈ گئے تھے۔
پولیس ترجمان ڈپٹی کمشنر دھننجے کلکرنی کے مطابق مال ونی کے علاقے میں نقلی شراب فروخت کے الزام میں ممتایادو اور فرانسس ڈی میلو کو گرفتار کیا گیا ہے۔ڈی میلو کے گھر سے چھ گیلن دیسی شراب برآمد کی گئی ہے۔وہیں مہاراشٹرکے وزیر اعلیٰ دیویندر پھڈنویس کے حکم کے بعد کرائم برانچ اس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔پولیس کے مطابق اب تک تین افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ آٹھ پولیس اہلکاروں کو معطل بھی کیا گیا ہے۔واقعہ کے بعد ممکن ہے ملاڈ میں چند دنوں کے لیے شراب کا کاروبار ذرا سست پڑجائے اس کے باوجود پورے ملک میں شراب کا کاروبار زور وشور سے جاری ہے۔معاملہ یہ ہے کہ ایک طرف حکومت شراب کی دکانوں کا لائسنس فراہم کرتی ہے،تو وہیں غریب اور مزدور طبقہ غیر لائسنس شدہ دکانوں سے شراب حاصلکرتے ہیں۔شراب نوشی کے نتیجہ میں معاشرہ حد درجہ متاثر ہے،گھروں شرابی شوہر خواتین کا مختلف طریقوں سے استحصال کرتے ہیں۔دوسری طرف شراب نوشی کے نتیجہ میں خاندان مالی تنگی کا شکار ہوتا ہے،اورخواتین مختلف قسم کے چھوٹے موٹے کام کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔جہاں وہ مزید استحصال کا شکار ہوتی ہیںْاور ذلت و رسوائی کے سوا انہیں کچھ حاصل نہیں ہوتا۔متاثرہ خواتین اس برائی کے لیے آواز بھی اٹھاتی ہیں تو پہلے شوہر لڑتے ہیں،
بعد میں پولیس خاموش رہنے کو کہتی ہے۔اور یہ متاثرہ خواتین اور ان کی روداد غریب و کمزور طبقہ ہی میں نہیں بلکہ حد درجہ موڈرن اور روشن خیال طبقہ میں پائی جاتی ہے۔ان حالات میں جبکہ ایک جانب ملزمان کے خلاف پرزور آواز اٹھانے سے روکا جائے تو وہیں معاشرہ میں برائیوں کی ماں شراب کاکھلے عام کاروبار جاری ہو۔یہ کیسے ممکن ہے کہ اہل ملک خوشحال ہوں اور ملک عزیز میں عدل و قسط قائم ہو جائے؟صورتحال کے پس منظر میں یہ بات بھی خوب واضح ہو جاتی ہے کہ موجودہ نظام اپنے اندر بے شمار کمزوریاں رکھتا ہے،جس کے نتیجہ میں ہرروز مسائل بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔برخلاف اس کے اسلام نہ صرف ان دو معاملات میں بلکہ ہر معاملے میںایک صالح فکر و نظام رکھتا ہے۔ ضرورت ہے کہ سماجی ،معاشی اور معاشرتی ہر پہلو سے اسلام کی دعوت پیش کی جائے!
Mohammad Asif Iqbal
تحریر : محمد آصف اقبال maiqbaldelhi@gmail.com maiqbaldelhi.blogspot.co