یوم آزادی کا پیغام

Independence Day

Independence Day

14 اگست کے روز ہمارے پیارے وطن پاکستان کے قیام کو 67 سال مکمل ہو جائیں گے۔ اس بار ہمارے وطن کے قیام کا دن یعنی 14 اگست ایسے حالات میں آیا ہے کہ ملک میں سیاسی افراتفری ہے۔ 14 اگست کے حوالے سے اسلام آباد کی جانب کئی سیاسی جماعتوں نے مارچ کے اعلانات کر ڈالے تھے۔ مقصد کیا ہے؟ مخالف فریق کو نیچا دکھا کر خود اقتدار پر قابض ہونا… حالانکہ 14اگست کا دن تو ہمیں کچھ اور ہی یاد کراتا ہے۔ ہمارے آباء نے انگریز سے آزادی کیلئے لاکھوں جانوں کے نذرانے پیش کئے۔

انگریز جب اس خطے پر قابض ہوا تو اس کے خلاف عملی جہادی جدوجہد کرنے والے مسلمان ہی تھے۔ انگریزوں نے لاکھوں عام مسلمانوں اور ان کے قائدین و علماء کو تحریک آزادی چلانے کی پاداش میں پھانسیاں دیں۔ انگریزوں نے جہادی جدوجہد آزادی کے حوالے سے کالے پانی کے جزیرے پر 28فروری 1872ء کو وائسرائے ہند لارڈ رچرڈ میو کے ایک مجاہد شہید علی خان آفریدی کے ہاتھوں واصل جہنم کئے جانے کو اپنے خلاف ”پہلا جہاد” “The first Jihad” قرار دیا تھا۔ ان کی کتابوں میں ان کے خلاف لڑنے والے وہابی مجاہدین کا تذکرہ کثرت سے ملتا ہے۔

اسی جہاد کے نتیجے میں انگریز برصغیر چھوڑنے پر مجبور ہوا لیکن وہ یہاں سے جاتے ہوئے ہمارے ساتھ دشمنی کی آخری حد نبھاتا گیا۔ انگریز نے جاتے ہوئے برصغیر کا سارا خزانہ، ساری صنعت، سارا ایمونیشن بلکہ سب کچھ جہاں بھارت کے حوالے کیا، وہیں پاکستان کو ایسے مسائل میں گھیرا کہ پاکستان چند سال بھی قائم نہ رہ سکے۔ سرکریک سے لے کر کشمیر اور سیاچن کی چوٹیوں تک اور ریاست جونا گڑھ، مناوادر سے لیکر مشرقی پاکستان کی سرحدی حدود تک مسئلے ہی مسئلے کمزور و نحیف پاکستان کیلئے منہ کھولے کھڑے تھے۔ پھر اوپر سے تقسیم کے وقت ہجرت کا سلسلہ شروع ہوا تو بھارت کے پاکستان آنے والے مسلمانوں کے قافلوں پر ہندوئوں اور سکھوں نے وہ مظالم ڈھائے کہ تاریخ کا بڑے سے بڑا ظالم بھی شرما جائے۔

یہ جہاں کرئہ ارض کی تاریخ میں سب سے بڑی انسانی ہجرت تھی، وہیں اس ہجرت کے دوران 15لاکھ کے لگ بھگ شہادتیں بھی ایک دلدوز واقعہ ہے۔ مظلوم مسلمانوں کی عورتوں، بچوں اور بوڑھوں تک کو جس طرح ہندوئوں نے زندہ جلایا، ٹکڑے ٹکڑے کیا، ان کی عزتیں لوٹیں اور ہزاروں مسلمان خواتین کو اپنے گھروں میں قید کر کے انہیں اپنی جنسی ہوس پوری کرنے کیلئے رکھا اور ان سے اپنی غیرمسلم اولادیں پیدا کیں، وہ سب بھی ظلم و جبر کی ایک لہو رنگ داستان ہے۔کبھی ہمارے سیاستدانوں کو حکومت لوٹنے کے چکر سے فرصت ملے تو قیام پاکستان اور تقسیم ہند کے حوالے سے لکھی چند کتابیں ضرور پڑھ لیں جنہیں پوری سازش سے ہمارے نصاب اور معاشرے سے مکمل نابود کر دیا گیا ہے۔

بھارت سے کئی ملین مسلمان ہجرت کر کے پاکستان پہنچے تو ان کی جائیدادوں پر ہندو قابض ہو گئے اور پھر ان کی چھوڑی ہزاروں مساجد تک پر ہندوئوں نے قبضہ کر کے انہیں اپنی ذاتی جاگیروں میں بدل دیا۔ پاکستان میں آج 67 سال پہلے کے ہندوئوں کے مندروں اور گوردواروں کو تلاش کر کر کے ق لیگ کی حکومت نے دوبارہ سے بنانے اور آباد کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا جبکہ بھارت میں مسلمانوں کی کسی مسجد کو دوبارہ بنانا تو کجا بنی ہوئی تاریخی و نادر مساجد کا قائم رہنا بھی محال ہے۔ ان حالات میں آگے بڑھنے والے پاکستان کا دشمن جہاں بھارت تھا، وہیں امریکہ بھی اور برطانیہ بھی تھا۔

Pakistan

Pakistan

ان سب کی کوشش ایک ہی تھی کہ پاکستان قائم نہ رہ سکے۔ پھر ان سب کی مشترکہ و متحدہ سازشوں اور کوششوں سے 1971ء میں پاکستان دولخت ہوا۔بھارت نے پاکستان توڑنے میں کتنابڑا کردا ر ادا کیا اب تو سب کچھ سامنے آچکا ہے۔ہمیں مشرقی پاکستا ن میں بھارت سے بچانے کیلئے جو بحری بیڑا ہمارے سب سے پیارے دوست امریکہ نے روانہ کیا تھا، وہ آج تک نہیں پہنچ سکا۔ ایک بار پھر لاکھوں پاکستانی مسلمان خون کی وادیوں میں اتر کر موت سے ہمکنار ہوئے لیکن افسوس کہ اتنی قربانیوں، اتنی صعوبتوں اور اتنی آزمائشوں سے گزرنے کے بعد ہم آج تک یہ نہ سمجھ سکے کہ ہمارا دشمن کون ہے؟ اور یہ پاکستان ہم نے قائم کیسے رکھنا اور کیسے آگے بڑھانا ہے۔ ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کل سے لیکر آج تک کشمیر تھا لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ اقتدار کے کھیل میں دن رات مگن کسی سیاسی پارٹی کو کشمیر کا نام لینے کی توفیق نہیں۔

امریکہ اور سارا مغرب مل کر ہمارے ملک کے گرد گھیرا ہر روز تنگ کر رہے ہیں۔ ہمارے ملک کے لوگوں کے بیرون ملک سفر تک پر سخت سے سخت پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔ بیرونی دشمن دنیا نے ہمارے ملک کا سفر بند کر دیا ہے۔ امریکہ ڈرون حملوں کی یلغار جاری رکھے ہوئے ہے۔ بھارت بلوچستان سمیت ملک کے کئی علاقوں میں دن رات تخریبی سازشوں میں مصروف ہے۔ دلچسپ بات دیکھئے کہ وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب کے دوران جب بتایا گیا کہ وہاں سے بھاری مقدار میں انڈین کرنسی برآمد ہوئی تو اس پر بھی ملک کے اقتدار پر قبضے کیلئے جانیں لڑانے والوں کی زبانیں گنگ رہیں اور اب بھی ہیں۔ آخر ہم کیسے لوگ ہیں کہ ملک کے اقتدار و اختیار پر تو قبضہ کرنا چاہتے ہیں لیکن اس کے دشمن کے خلاف زبان کھولنے اور اس کے خلاف جاری جنگ میں شریک نہیں ہونا چاہتے۔

14اگست کا سبق تو ہر حال میں یہ ہونا چاہئے کہ جس فارمولے کے تحت ہمارا ملک بنا تھا، یعنی مسلم اکثریتی علاقے پاکستان میں شامل ہوں گے، ہم سب سے پہلے وہ مقصد حاصل کریں گے۔ بھارت سے کشمیر سب سے پہلے چھڑائیں گے۔ کسی عجیب بات ہے کہ گزشتہ67سال سے کشمیری قوم نے ہماری خاطر لاکھوں جانوں کی قربانی دی۔

وہ آج بھی ننگے پائوں، خالی ہاتھ 10 لاکھ بھارتی فورسز کا مقابلہ کر رہے ہیں لیکن آزادی اور پاکستان کے دفاع و بقا اور تکمیل کی خاطر سر جھکانے کو تیار نہیں لیکن ہماری سیاسی پارٹیاں جو صرف اسلام آباد پر قبضہ چاہتی ہیں، اس کشمیر کا نام تک لینے کو تیار نہیں۔ سرکریک سے لیکر سیاچن تک ہمارے ملک کو مشرقی سرحد پر سب سے بڑے دشمن بھارت کی یلغار کا سامنا ہے لیکن اس کی جانب سے کسی کو پروا نہیں۔ ملک زرعی کہلاتا ہے لیکن دشمن بھارت کے پانی بند کرنے کی وجہ سے جہاں بجلی کی قلت کا شکار ہے تو وہیں پانی نہ ہونے سے زراعت زبوں حالی سے دوچار ہے۔ آخر اس سب کی وجہ کیا ہے؟

ہمیں اس یوم آزادی پر اس پر لازم غور کرنا چاہئے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم اقتدار کے حصول کی خاطر اپنے ملک کا نقشہ بھول گئے۔ اپنے ملک کے مسائل بھول گئے۔ اپنے ملک کے دشمنوں کو بھول گئے۔ اپنے ملک کے گرد دشمنوں کے قائم حصار اور سازشوں کو بھول گئے۔ اس وقت پاکستان بہت سے محاذوں پر مشکلات سے دوچار ہے۔ بھارت ہر روز دبائو بڑھاتا ہے۔ امریکہ سخت سے سخت بیان دیتا ،ڈرون حملے بڑھاتا اور اپنا محاصرہ تنگ کرتا ہے۔ ہمیں سب سے پہلے مل کر اور ایک ہو کر ان باہر کے اصل دشمنوں کا مقابلہ کرنا اور ملک کی جغرافیائی سرحدوں کو محفوظ و مامون بنانا ہو گا۔ ہماری باہمی لڑائی صرف اور صرف دشمن کو ہی فائدہ پہنچا سکتی ہے، ہمیں کبھی نہیں۔ اگر ہم نے ملک کو پہلے دشمنوں سے محفوظ بنا لیا اور اس کی وہ سرحدیں مکمل کر لیں جو اس کے قیام کے وقت طے قرار پائی تھیں، جو 14 اگست 1947ء کو ہمیں ملتا تو ہم اس کے اقتدار کا مسئلہ بھی حل کر لیں گے۔

وگرنہ ہم سارے دشمنوں اور اپنے متعین مسائل کو بھول کر اس طرح باہمی مار دھاڑ اور لڑائی میں مصروف رہے تو دشمن ہمیشہ کی طرح ہمارے خلاف فائدہ اٹھائے اور ہمیں تباہی سے دوچار کرتا رہے گا۔ سو اس لئے ہمیں نہ اپنے آباء کی قربانیوں کو بھولنا ہے اور نہ قیام پاکستان کے وقت کی جدوجہد اور نہ اس کی جغرافیائی حدود کو اور نہ اس کے حقیقی مسائل کو کہ جن کے بغیر ہم آگے بڑھنے تو کیا قائم رہنے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔یاد رکھئے ! اگر پاکستان ہے تو ہم ہیں ،ہماری سیاست اور ساری موج مستی بھی ہے۔ اس لئے اس بار کے یوم آزادی پر تکمیل پاکستان کا عزم کرنا ہے۔

Ali Imran Shaheen

Ali Imran Shaheen

تحریر: علی عمران شاہین