تحریر : محمد شہباز ہمارے اردگرد بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں، جو ہمیں چاہتے تو ہیں مگر بعض دفعہ حالات کے پیش نظر وہ اپنی چاہت کو پس پردہ ہی رکھتے ہیں،کہ کہیں عوام کی نظر میں نہ آجائیں ،مگر جب تک وہ ظاہر نہیں کرتے تواس وقت بھی سوچنے والے کے ذہن میں چند سوالات جنم لیتے ہیں کہ کب یہ مجھے نہیں چاہتا،یا صرف مجھ سے دوری اختیار کرنا چاہتا ہے،وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تووہ لوگ ہیں جوکہ خود کو اوراپنی چاہت کو چھپا کررکھتے ہیں،مگر میری مراد وہ لوگ ہیں جوکہ سب کچھ ظاہر ہونے کے بعد بھی بے وفائی اوربے رخی کی انتہا سے گزر جاتے ہیں،اور وجہ بھی نہیں بتاتے ،شائد وہ یہ سب کچھ اس لئے کرتے ہیں،کہ ان سے بے پناہ عشق کیا جاتا ہے،یا پھر اس لئے کہ خود کو ان کی راہوں میں بچھا دیا جاتا ہے،عاشق کا قصور صرف اتنا ہی ہوتا ہے کہ وہ عشق کربیٹھتا ہے،یا اسے اپنے عشق کا احساس ہوجاتا ہے،اور معشوق اسے اس بات کی سزا دیتا ہے،کہ آخراس نے عشق کیا ہی کیوں ہے،عشق کسی دبی گھٹی لغت کا لفظ نہیں ہے جو کہ خودکودبائے رکھے،یہ توخوداپنا آپ بناتا ہے،اور ضرورت پڑنے پرخودکومنوا بھی لیتا ہے،لیکن یہ پروان معشوق کے ہاتھ میں پڑھتا ہے،اوراسی کے سپرد ہوتا ہے،
آج اگر ہم اپنے اردگرد نظردوڑائیں توہرطرف ظلم وبربریت کی ایک داستان بلکہ کئی داستانیں رقم ہوتی دکھائی دے رہی ہیں،جہاں ہرطرف لہولاشیں ہیں،اور نوع انسان کی بے حرمتی اور عزتوں کوپائوں تلے روندا جارہا ہے،یہ کام پوری دنیا میں ہورہا ہے،مگرمیں بالخصوص وطن عزیز یعنی اپنے گھرکی بات کررہا ہوں وطن توہمیں مل گیا،مگر اس کے نظام کوہم نے اپنے ہی ہاتھوں درہم برہم کردیا ،وطن تواپنے رہائشیوں کا عاشق ہے،جوان سے عشق کرتا ہے،اور جس نے پوری قوم کواپنے اندربسایا ہوا ہے،اور قوم بھی معشوق کے طور پراپنے فرائض سرانجام دے رہی ہے،اور اپنے ہی عاشق پر ظلم بپا کررہی ہے،
آج ہم اگر کسی بھی شعبہ ہائے زندگی کی طرف دیکھیں تو وہیں پر وطن کے ساتھ دھوکہ دہی ہورہی ہے،اس کی ساکھ کو کمزور کیا جارہا ہے،اور وہیں اس کی جڑوں کوکاٹا جارہا ہے،انتظامیہ اپنے رعب میں مصروف ہے،تورہائشی اپنی اکڑپر،پولیس والا کہیں سڑک پر چالان کے لئے گالی دے رہا ہے،تو ملزم بھی کہیں پر کسی کی نظر میں دھول جھونک رہا ہے،کہیں دودھ میں پانی ملایا جارہا ہے،تو کہیں پانی میں دودھ کہیں سچ میں جھوٹ ملایا جارہا ہے،توکہیں بے ایمانی کا ایمانداری کا صرف تڑکہ ہی لگایا جارہا ہے،یہ سب وقتی طورپر ہمیں توشائدنفع پہنچا دیتا ہے
Mother and Child
مگر عاشق تو باربار معشوق سے ہی سوال کررہا ہے ،کہ معشوق لوگ ہی ظالم کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔؟ ماں باپ وہ ہستیاں جویقینا ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتیں وہ کس طرح کوئی ایک یا دونوں اپنی اولادکوپالیتے ہیں،ان کے نخرے برداشت کرتے ہیں ،دکھ ہو یا سکھ وہ کبھی بھی اپنی اولاد کو تنہا نہیں چھوڑتے ،اور ہروقت اسی سوچ میں گم رہتے ہیں،کہ کہیں کسی وجہ سے ان کی اولاد کو کوئی تکلیف نہ پہنچ جائے کیونکہ وہ اپنی اولاد سے عشق کرتے ہیں،لیکن بدلے میں اولاد جوسلوک اپنے والدین سے کرتی ہے،کوئی سوچ بھی نہیں سکتا ،وہ لوگ جو اولاد کوپوری عمر اپنے پاس رکھتے ہیں،اور ان کو زمین سے اٹھا کر آسمان پر لے جاتے ہیں،
وہی ان کو بوجھ لگنے لگتے ہیں،پوری اولاد مل کر بھی اپنے والدین کو پاس رکھنے کی جرات نہیں کرتی،کیونکہ کہ حس اور غیرت ان کے اندر سے ختم ہوچکی ہوتی ہے،کسی اور اجنبی کے لئے ۔۔۔۔۔۔۔پھر مگر اجنبی تو اجنبی ہوتا ہے،اور جواپنے والدین کا نہیں بن سکتا ،وہ بھلا اجنبی کا کیسے بن سکتا ہے،اور اگر وہ اجنبی کا بن بھی جائے، تو اجنبی اس کا نہیں بنتا،کیونکہ وہ یہ جان چکا ہوتا ہے،کہ جواپنے والدین کا نہیں بن سکا وہ میرا کیسے بنے گا،اور اسی طرح عاشق اور معشوق کا یہ مدعا یونہی چلتا رہتا ہے،
ماں باپ اپنی اولاد کے عاشق ہوتے ہیں ،کیونکہ جوعاشق ہوتا ہے وہ کسی کا معشوق بھی تو ہے،اور جب کسی عاشق پہ ظلم ہوگا اور وہ بھی معشوق کی صورت میں اپنے عاشق پر ظلم ہی برسائے گا،کیونکہ وہ بھی معشوق ہے ۔۔۔۔۔اچھا بوئیں گے تو اچھا ہی کاٹیں گے،کسی کے ساتھ اچھائی کرینگے توہی بدلے میں اچھائی ملے گی،ان حقیقتوں کا مقصد اس بات کو اپنے طور پرسمجھنا ہے،کہ جن لوگوں سے عشق کیا جاتا ہے،وہی لوگ دھوکا کیوں دیتے ہیں،اورمکاری کے ساتھ مل کر مکار کیوں بن جاتے ہیں،۔۔۔۔۔۔۔۔کیوں ۔۔۔ ”معشوق لوگ ہی ظالم کیوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟”