تحریر : سید عارف سعید بخاری کہتے ہیں کہ کسی کی جان لینے والا شخص ”قتل” کے بوجھ کو زیادہ دیر برداشت نہیں کرسکتا، خون خود بولتا ہے اور ”قاتل” بسا اوقات اُس ذہنی کیفیت سے دوچار ہوجاتا ہے کہ جس میں وہ چیخ چیخ کر کہتا ہے کہ ہاں ! میں ”قاتل” ہوں میں نے ہی فلاں شخص کا ناحق خون کیا تھا ، مجھے پھانسی پر لٹکا دو ۔۔۔۔۔کیونکہ اس کے بغیر مجھے چین نہیں آئے گا لیکن پاکستان میں ہمارے ضمیر اس قدر مردہ ہو چکے ہیں کہ یہاں ”قاتل” کے دماغ کو خون چڑھتا ہے اور نہ ہی وہ اس کیفیت سے دوچار ہوتا ہے کہ وہ خود چلانے لگے کہ بھائیو ! میں قاتل ہوں، مجھے سولی پر لٹکا دو ، مقتول رات کو سوتے میں بھی مجھے ڈراتا ہے۔ میری نیند حرام۔۔میرا سکون غارت ہو چکا ۔۔مگر وطن عزیز میں صورتحال مختلف ہے ۔۔یہاں تو لوگ ایسے کارہائے نمایاں انجام دینے کے بعد ”مسکراتے”ہیں اور ایک دوسرے سے جام ٹکرا کر ”چیئر” کرتے نظر آتے ہیں۔
پاکستان کے پہلے وزیر اعظم خان لیاقت علی خان سے لے کر بے نظیر بھٹو تک ہمارے کتنے ہی قائدین ”نادیدہ قوتوں” کی سازشوں کا شکار ہوئے لیکن آج تک ان سانحات کے ذمہ دار کسی ایک فرد کو بھی پھانسی پر نہیں لٹکایا جا سکا ۔ ہر سانحہ میں ملوث سازشیوں کو اہم ترین عہدوں پر بٹھایا گیا یا انہیں مروا دیاگیا تاکہ وہ لوگ کسی بھی مقام پر اُن کے لئے کوئی مشکل پیدا نہ کر سکیں ۔ڈاکٹر خان صاحب اورلیاقت علی خان کو قتل کیا گیا ،قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کو سولی پر لٹکانے والے آج تک اس سوال کا جواب نہیں دے سکے کہ کیا بھٹو نے نواب احمد خان کو خود اپنے ہاتھ سے گولی ماری تھی یا پھر انہوں نے ایف ایس ایف کے سربراہ مسعود محمود کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ نواب احمد خان کو قتل کردیں ،سچ تو یہ ہے کہ ایسی بات نہ تھی ،بھٹو کو سولی پر لٹکانے میں امریکہ سمیت قادیانیوں اور خود اُن کے قریبی تعلق داروں کا ہاتھ تھا کہ جنہوں نے ضیاء الحق کے ساتھ مل کو بھٹو کو پھانسی پر چڑھانے میں اہم کردار ادا کیایوں قوم کو ایک عظیم رہنماء سے محروم کر دیا گیا ۔بعد ازاں بھٹو کے ایک صاحبزادے میر شاہنواز بھٹو کو مار دیا گیا۔
بی بی بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں اُن کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کاقتل کیا جانا بھی پاکستانی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے کہ جس کے بعد اُس وقت کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو بھی اپنے بھائی کے قاتلوں کو کیفر کردار تک نہ پہنچا سکیں۔ اسی طرح کے اور بہت سے المناک واقعات پاکستان کی تاریخ میں رقم ہو چکے ہیں کہ جن کے بارے میں اصل حقائق آج تک سربستہ راز بنے ہوئے ہیں ۔ان تمام سوالوںکے جواب ہمارے حکمرانوں کے پاس ہیں اور نہ ہی پاکستان میں کوئی ”مرد حُر ”ایسا پیدا ہوسکا کہ جو اِن رازوں سے پردہ اٹھا سکے۔
پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن اور قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بی بی بے نظیر بھٹو کی شہادت کا اندوہناک سانحہ بھی گذشتہ 9سالوں سے سربستہ راز بنا ہوا ہے ، بی بی کے قتل کا سانحہ بھی بلاشبہ کسی فرد واحد پر نہیں تھوپا جا سکتا ۔بی بی کی شہادت کے ذمہ داران میں کئی نام لئے جاتے ہیں ہر سال بی بی کی برسی کے موقع پر میڈیا کے ذریعے مختلف کہانیاں سننے کو ملتی ہیں۔ اوّل تو بی بی کی شہادت کے پہلے برس کے دوران ہی خود اُن کے شوہر نامدار آصف علی زرداری کے بیانات سے واضح ہو چکا تھا کہ اس کیس کا کچھ نہیں ہوگا۔ مثلاً اُن کا یہ کہنا کہ بی بی کی شہادت کے وقت جو لوگ اُن کے ساتھ تھے وہ میرے ہی آدمی تھے یعنی میرے ساتھ جیل کے ساتھی تھے یا پھر یہ کہنا کہ اگر ہم قاتلوں کو بے نقاب کریں گے تو وہ ہمیں ہی مار دیں گے۔
Asif Ali Zardari
المیہ یہ ہے کہ بے نظیر بھٹوکو شہید کرانے والے سازشی عناصرآج تک بے نقاب ہو سکے اور نہ ہی انہیں منطقی انجام تک پہنچایا جا سکا ۔سانحہ کے چشم دیدگواہان کوایک ایک کرکے قتل کرا دیا گیا یاوہ مر گئے ۔ بی بی بے نظیر بھٹو کی شہادت کو 9برس بیت گئے ۔بی بی کے نام پر ”مرد حُر” 5سال اس ملک کے صدر رہے ، اس سانحہ پر بی بی کو ”بہن ” کہہ کر آنسو بہانے والے بھی اپنے دور حکومت میں قاتلوں کو اپنے انجام تک نہ پہنچا سکے۔اس سانحہ پر اٹھائے گئے متعد د سوالات ہنوز سوالیہ نشان ہیں اور شاہد تا قیامت رہیں گے کیونکہ وطن عزیز میں سازشوں کے تانے بانے بننے والے ”نادیدہ ہاتھ” بہت مضبوط ہیں ۔جن کا مقابلہ کرنا کسی کے بس کی بات نہیں۔
گذشتہ برس معروف تجزیہ نگار ڈاکٹر شاہد مسعود نے اپنے ٹی وی پروگرام میں بے نظیر بھٹو شہید کے قتل کی سازش کے حوالے سے اہم انکشافات کئے تھے۔اپنے پروگرام میں انہوں نے عزیربلوچ نامی شخص کا ذکر کرتے ہوئے بعض حقائق قوم کے سامنے پیش کئے تھے۔مگر ایک سال گذرنے کے باوجودڈھاک کے وہی تین پات ۔۔۔معاملہ آگے نہ بڑھ سکا۔بے نظیر بھٹو کے صاحبزادے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری جو اپنی والدہ کی شہادت کے بعد اپنے والد آصف علی زرداری کی خواہش پراس ملک کا وزیر اعظم بننے کا سہانا سپنا دیکھ رہے ہیں، آج تک اپنی والدہ کے قتل پر خاموشی اختیار کئے ہوئے البتہ حصول اقتدار کے لئے وہ بھی اپنے والد کی طرح ”مفاہمتی سیاست” کو پروان چڑھا رہے ہیں۔انہیں بھی اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ بی بی کے قاتل اپنے انجام کو پہنچیں ۔البتہ کراچی میں خواتین کے حقوق کے سلسلے میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاہے کہ ”جب میری ماں کی شہادت پر مجھے انصاف نہیں مل سکا تو عام لوگوں کو کیسے انصاف ملے گا” ۔اب دیکھنا یہ ہے بلاول بھٹو اس ملک کے وزیر اعظم بن کر کس طرح غریب عوام کو حق و انصاف دلاتے ہیں اور کیسے بی بی کے قاتلوں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچاتے ہیں۔۔۔یقیناً یہ ایک کٹھن کام ہے بڑے بڑے سورما یہاں انصاف انصاف کی دہائی دیتے اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔
بی بی بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کا جنازہ نکل چکا ہے ، قائد عوام کی پارٹی پنجاب کی حد تک تو گویا ختم ہو کر رہ گئی ہے قائدین کی عاقبت نااندیشی کی وجہ سے پارٹی کی مقبولیت کا گراف کافی حدتک گر چکا ہے لیکن کسی نے اُن وجوہات کا ادراک کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔آج بی بی بے نظیر بھٹو شہید کی 9ویں برسی پر ہماری آنکھوں کے سامنے وہ منظر گھوم رہاہے جب لیاقت باغ سے نکلتے وقت ہماری عظیم قائد پر گولی چلائی گئی اور دھماکے کئے گئے اور اس واردات میں بی بی کو داعی ملک عدم ہونا پڑا ۔دکھ کی بات تو یہ ہے کہ اس سازش میں غیروں کے ساتھ ساتھ اپنے بھی شریک تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک یہ راز۔۔ راز ہی ہے۔ حصول اقتدار کی بساط سجانے آصف علی زرداری واپس پاکستان پہنچ رہے ہیں ، ہم انہیں وطن واپسی پر خوش آمدید کہتے ہیںاُن کی آمد کا مقصد بی بی کے قاتلوں کو اپنے انجام تک پہنچانا ہر گز نہیں بلکہ و ہ اپنے صاحبزادے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول زرداری کو اس ملک کا وزیر اعظم بنانے کا عزم لے کر آئے ہیں انہیں اُمید ہے کہ اُن کا صاحبزادہ ضرور اس ملک کا وزیر اعظم بنے گا۔
بیشک وہ رب جسے چاہئے عزت دے جسے چاہے ذلت دے۔ اگر رب کائنات بلاول پر مہربان ہو جائے تو اس سے بڑی خوشی کی اور کیا بات ہو گی لیکن انہیں چاہئے کہ وہ اس بات کا عہد کریں کہ وہ بی بی بے نظیر بھٹوکے قاتلوں کو ضرور منطقی انجام تک پہنچائیں گے ۔۔ بی بی کی روح کو تسکین دینے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے ۔بلاول زرداری کو یہ بات ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ اقتدار کی کرسی پھولوں کی سیج نہیں ہے اس کے ساتھ کانٹوں کے ہار بھی ہیں انہیں اس کیلئے بہت سوچ سمجھ کر آگے بڑھنا ہوگا، پیپلز پارٹی بھٹو خاندان کی میراث ہے اور اس پر قائد عوام ذوالفقارعلی بھٹو کے بچوں اور اُنکے پوتوں ، پوتیوں کا زیادہ حق ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ بلاول زرداری اپنی والدہ کے نام پر” مفاہمتی سیاست” کو وسعت دیتے ہوئے بھٹو خاندان کے حقیقی وارثوں کو بھی اپنے ساتھ لے کر چلیں کیونکہ حق وانصاف کا یہی تقاضا ہے ،اگر انہوں نے ان خطوط پر پیپلز پارٹی کا تشخص بحال کرنے کی حکمت عملی اپنانے پر توجہ دی تو یقیناً آئندہ الیکشن میں پیپلز پارٹی سندھ ، پنجاب اور سرحد سمیت پورے ملک میں ایک مضبوط قوت بن کر ابھرے گی جو بلاول زرداری کا ایک بڑا کارنامہ ہوگا ،اس طرح وہ احسن طریقے سے بی بی بے نظیر بھٹو شہیدکے مشن کو آگے بڑھا نے میں کامیاب و کامران ہوں گے ۔،ورنہ انہیں پچھتاوے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا۔