اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی شہادت کو آج 12 برس بیت گئے مگر ان کے قاتلوں کا سُراغ آج بھی نہ مل سکا۔
پاکستان کی سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو پر 27 دسمبر 2007 میں حملہ ہوا اور اور وہ اپنے 23 جانثاروں کے ہمراہ شہادت کے رتبے پر فائز ہوگئیں۔
خیال یہ تھا کہ دو بار منتخب ہونے والی مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم کے قتل کے پیچھے چھپے کرداربے نقاب ہوکر انجام تک پہنچیں گے مگر ایسا کچھ نہ ہوا۔
کیس کی تحقیقات پہلے پنجاب پولیس اور پھر ایف آئی اے کے سپرد ہوئیں جس میں بطور ملزم سابق فوجی صدر پرویز مشرف کو نامزد کیا گیا۔
بے نظیر بھٹو پر حملہ بین الاقوامی طور پر دہشت گردی قرار دی گئی، اس کیس کی تحقیقات میں عالمی تنظیم القائدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کا نام بھی سامنے آیا مگرانہیں چالان میں نامزد نہ کیا گیا۔
تحریک طالبان کے سربراہ بیت اللہ محسود اس کیس میں اشتہاری قرار ہوئے اور اسی دوران ڈرون حملے میں مارے گئے۔
اسی کیس میں کالعدم تحریک طالبان اور دہشتگردی کی اس کارروائی سے مبینہ طور پر جڑے ملزمان اعتزاز شاہ، شیرزمان، حسنین گُل، محمد رفاقت اور رشید احمد بھی 9 سال تک گرفتار رہے۔
علاوہ ازیں دو پولیس افسران سعود عزیز اور خرم شہزاد کو جائے وقوعہ دھونے کے الزام میں کیس میں نامزد کیا گیا۔
سینئر پولیس افسران سعود عزیز اور خرم شہزاد کو 17 سال کی سزا سنائی گئی، ان دونوں پولیس افسران نے اعلیٰ عدالتوں میں اپیلیں دائر کر رکھی ہیں۔
سعود عزیز اپنی نوکری سے رئٹائرڈ ہوچ کے ہی٘ں اور خرم شہزاد پنجاب حکومت میں زمہ داریاں ادا کر رہے ہیں جب کہ مقدمے کے ایک ملزم سابق صدر پرویز مشرف ابھی تک مفرور اشتہاری ہیں اور وطن وآپس آکر مقدمے کا سامنا کرنے سے گریزاں ہیں۔
بے نظیر بھٹو قتل کیس سے جڑی سب کہانیاں اپنی جگہ مگر آج تک پاکستانی عوام یہ جاننے سے قاصر ہیں کہ بے نظیر کا اصل قاتل کون تھا؟