تحریر: سید انور محمود پاکستان میں بھٹو خاندان واحد سیاسی خاندان ہے جس نے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سیاست کی ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ خود ذوالفقار علی بھٹو ایک آمر کے ہاتھوں پھانسی کے پھندئے سے لٹکا دیئے گئے، ان کے بعد 1985میں فرانس میں مقیم ان کے چھوٹے بیٹے شاہ نواز بھٹوکو اس کی اپنی بیوی ریحانہ سے زہر دلواکر موت کی آغوش میں پہنچادیا، بعد میں یہ کہانی سامنے آئی کے اس سازش میں بھی ضیاءالحق کا ہاتھ تھا، یہ بھی پتہ چلا کہ ضیاء الحق اور اس کی حکومت کے کارندوں نے شاہ نواز کی بیوی ریحانہ کی رہائی میں اصل کردار ادا کیا تھا۔ جنرل ضیا، بھٹو کو عدالت کے ذریعے قتل کرچکا تھا اس لئے اس الزام کو سچ تسلیم نہ کرنے کی کوئی وجہ بھی نہیں ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بڑئے صابزادئے مرتضی بھٹو کو 20 ستمبر 1996 کو کراچی میں کلفٹن کے علاقے میں ان کے گھر کے سامنے ایک چلتے ہوئے روڈ پرعام لوگوں کی موجودگی میں ان کے سات ساتھیوں سمیت پولیس نے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا۔ مرتضیُ بھٹو کے قتل میں اس وقت کی وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری، سابق وزیر اعلیٰ سندھ عبداللہ شاہ، ڈی آئی جی شعیب سڈل، ایس ایس پی واجد درانی، اے ایس پی رائے طاہر، اے ایس پی شاہد حیات، پولیس افسر شبیر قائمخانی اور آغا طاہر ملزم قرار دیئے گئے تھے۔ اس قتل کی تفتیش کرنے والے افسر کو اور دو دوسرئے پولیس اہلکاروں کوبھی تفتیش کے دوران قتل کردیا گیا اور پھرقاتل نامعلوم۔
تقریباًً دس برس قبل 27 دسمبر 2007 کی شام کو پاکستان کی سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو راولپنڈی میں ان پرہونے والے ایک دہشتگردانہ حملے میں جاں بحق ہو گئیں تھیں، اس سے صرف دو ماہ قبل 18اکتوبر 2007کو جب بینظیر بھٹو اپنی جلاوطنی ختم کرکے کراچی پہنچیں اور ایک جلوس کی قیادت کرتی ہوئی مزار قائد جارہی تھیں تو کارساز کے علاقے میں ان کے جلوس پر دو خود کش بم دھماکے کیے گئے، ان دھماکوں میں بینظیر بھٹو تو بچ گیں تھیں لیکن 200 کے قریب ان کی پارٹی کے ورکر جاں بحق اورساڑھے پانچ سو کے قریب زخمی ہوگئے تھے۔ 31 اگست 2017 کو بینظیر بھٹو کے قتل کےتقریباً دس سال بعد انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے ان کےقتل کے مقدمے کا فیصلہ سنایا ہے، جس کے مطابق عدالت نے بینظیر بھٹو قتل کیس میں گرفتار پانچ ملزمان کو باعزت بری کردیا ہے۔سابق سی پی او سعود عزیز اور سابق ایس پی راول ٹاؤن خرم شہزاد کو جان بوجھ کر شواہد ضائع کر نے اور غفلت مجرمانہ برتنے پر مجموعی طور پر17/ 17 سال قید اور 10 / 10لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنا دی گئی ہے۔عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کو اشتہاری قرار دے کر جائیداد ضبط کرنے کا حکم دیا ہے، گویا بینظیر بھٹو کے قاتلوں کو کوئی سزا نہیں ہوئی۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت اصل مجرموں کا سراغ لگانے میں قطعی ناکام رہی ہے، وہ یہ بھی معلوم کرنے میں ناکام رہی ہے کہ بینظیربھٹو کو قتل کروانے کی سازش کس نے تیار کی تھی اور یہ حملہ کیسے منظم کیا گیا تھا۔ تحریک طالبان پاکستان نے اس کی زمہ داری قبول کی تھی اور اس سے تعلق رکھنے والے پانچ افراد گرفتار بھی کئے گئے تھے لیکن عدالت نے ناکافی ثبوتوں کی وجہ سے انہیں بری کرنے کا حکم دیا ہے۔ جن دو پولیس افسروں کو طویل المدت سزائیں دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے، انہیں غفلت برتنے اور جائے سانحہ کو دھلوانے کے سبب سزا دی گئی ہے۔تاہم اب تک یہ بات واضح نہیں ہو سکی کہ ان پولیس افسروں نے کس کی ہدایت پر یہ غیر ذمہ دارانہ اقدام کیا تھا۔اس فیصلے کا ایک مضحکہ خیز پہلو یہ ہے دہشتگردوں کے سردارتحریک طالبان پاکستان کےسابق سربراہ بیت اللہ محسود کو بھی دیگر لوگوں کے علاوہ اشتہاری قرار دیاگیا ہے ۔ حالانکہ بیت اللہ محسود اگست 2009 میں ایک امریکی ڈرون حملے میں مارا جاچکا ہے۔پاکستان کی عدالتی تاریخ میں بینظیر بھٹو قتل کیس جیسا عجیب فیصلہ نہیں آیا ہے، تعجب یہ ہے کہ اس مقدمہ میں یہ فیصلہ نہیں ہوا کہ قاتل کون تھے۔
پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ اس فیصلے میں انصاف نہیں کیا گیا۔ثبوت کےباوجود القاعدہ اور طالبان دہشتگردوں کی رہائی حیران کن ہے، دہشتگردوں کی رہائی کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے ۔فیصلےکےبعد آصفہ زرداری نے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ 10سال بعد بھی ہم انصاف کے منتظر ہیں ، جو میری والدہ کے قتل میں ملوث ہیں وہ آج تک آزاد ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ جب تک پرویز مشرف سے ان کے جرائم کا حساب نہیں لیا جاتا انصاف نہیں ملے گا۔جبکہ بینظیر بھٹو کی ایک قریبی ساتھی ناہید خان کی رائے میں کوئی بھی بینظیر کے قاتلوں کو پکڑنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ انکا کہنا تھا کہ’’پانچ سال پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت رہی تمام سکیورٹی ایجنسیاں اس حکومت کے ماتحت تھیں لیکن وہ بی بی کے قاتلوں تک پہنچنے کے لیے کچھ نہ کر سکے‘‘۔پرویز مشرف کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر امجد کا کہنا ہے کہ عدالتی فیصلہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرتا۔انہوں نے کہا کہ جن 5افراد کو بری کردیا گیا ہے ان میں سے تین نے سہولت کاری کا اقرار کرلیا تھا، سمجھ سے بالا ہے کہ انہیں کیسے بری کردیا گیا۔ عدالت کا بینظیر قتل کیس کا فیصلہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرتا، اقبال جرم کے باوجود سہولت کاروں کو بری کر کے اصل منصوبہ سازوں کو عدالت سے دور کردیا گیا، پرویز مشرف صدر مملکت تھے، ضلعی سطح کے افسر کو احکامات نہیں دے سکتے تھے، ان پر بینظیر بھٹو کو سکیورٹی نہ دینے کا الزام بے بنیاد ہے۔
ایسا کبھی سننے میں نہیں آیا کہ زرداری یا پیپلز پارٹی کا کوئی رہنماکبھی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں دوران سماعت شریک ہوا ہو۔گزشتہ ہفتے احتساب عدالت سے آخری کرپشن ریفرنس سے رہائی کے بعد زرداری کا کہنا تھا کہ وہ عدالت کے ساتھ اس وقت تک بھاگتے ہیں جب تک وہ تھک نہیں جاتی۔اس طرح وہ اپنے آپ کو ایک ہوشیار سیاست دان کے طور پر پیش کرنا چاہتے تھے، جو یہ جانتا ہے کہ قانونی جنگ کیسے جیتی جاسکتی ہے۔تاہم ان کی یہ خوبی اپنی بیوی کے کیس میں نظر نہیں آئی۔بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں آگئی اور ان کے شوہر آصف علی زرداری صدر منتخب ہوئے لیکن وہ بینظیر بھٹوکے قتل کے پیچھے موجود شخص کو بے نقاب کرنے میں ناکام رہے۔ اس اہم مقدمے کے ایک مایوس کن فیصلے کے بعد یہ مقدمہ اپنے انجام کو پہنچ گیا ہے اور یہ امیدیں ختم ہوگئیں ہیں کہ کبھی بینظیر بھٹو کےاصل قاتلوں کو سزا ملے گی۔ اس فیصلے میں جانبداری برتی گئی ہے اور اصل مجرموں کو سزا سے بچایا گیا ہے۔ عدالت نے کیوں نہیں یہ سوال اٹھایا کہ بینظیر بھٹو کےقتل کا فائدہ کس کو ہوا۔ جعلی وصیت کے زریعے پارٹی کی صدارت کس نے حاصل کی، بینظیر بھٹو کی انشورنس کس نے کلیم کی۔ آصف زرداری کئی مرتبہ اعتراف کرچکے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ بینظیر بھٹو کا قتل کس نے کیا لیکن اس بات کاعلم نہ ہوسکا کہ آخر کس وجہ سے وہ قاتل کا نام نہیں بتاتے۔ تمام تر حکومتی وسائل اور اختیارات کے باوجود آصف زرداری اب تک اس راز کو کیوں چھپائے بیٹھے ہیں، اس سوال کا جواب عدالت کو آصف زرداری کو بلاکر پوچھنا چاہیے تھا۔
عدالتی فیصلہ آجانے کے باوجود اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بینظیربھٹو کے قتل کا معمہ اب بھی حل طلب ہے اور یہ معلوم ہونا ضروری ہے کہ بینظیر بھٹو کے اصل قاتل کون ہیں۔