بھول نہ سکے گا وہ دن وہ وقت وہ الفاظ جب بے نظیر بھٹو (شہید) نے اپنے آخری خطاب میں کہا تھا ” میں جیوں گی بھی اپنے ملک کیلئے اور مروں گی بھی اپنے ملک کیلئے ”محترمہ بے نظیر بھٹو اسلامی جمہوریہ پاکستان میںوزیر اعظم منتخب ہونے والی پہلی خاتون تھی، محترمہ بے نظیر بھٹو کو ہم سے بچھڑے 11سال بیت گئے مگر بے نظیر بھٹو کی یاد وں کے چراغ آج بھی روشن ہیں وہ اپنے جیالوں کے دلوں میں آج بھی زندہ ہے پاکستانی سیاست میں بے نظیر بھٹو کادلیرانہ کردار اورناقابل فراموش کارنامے لوگوں کے دلوں اور تایخ کے صفحات میں ہمیشہ زندہ ررکھیں گے۔ 27دسمبر 2007بے نظیر بھٹو کی شہادت ہوئی،محترمہ بے نظیر کے کروڑوں عقیدت مند27دسمبر 2007ء کا ہولنا ک واقعہ یاد کر کے آج بھی گہرے غم میں ڈوب جاتے ہیں 27دسمبر 2007ء لیاقت باغ میں چلنے والی گولیا ںوہ بم دھماکے کی آواز وہ ٹی وی چینلز پر چلنے والی محترمہ بے نظیر بھٹو کے شہید ہونے کی خبریں آج بھی کانوں میں گونجتی ہیں،آج بھی اس کا چہرہ آنکھوں میں گھومتا ہے۔
دیکھتی آنکھیں ،ہیں ا بھی چہرہ بے نظیر کا مگر کہیں ایسا چہرہ نظر نہیں آتا جو حق سچ کی آواز بنے جو مظلوم و غریبوں کا ساتھ دے حق سچ کی آواز تو یہ ہے کہ پاکستان میں بے نظیر جیسی خاتون تھی نہ ہے نہ ہو گی ،مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب 27دسمبر 2007ء کو لیاقت باغ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوے بینظیر نے کہا کہ میں جیوں گی بھی اپنے ملک کیلئے اور مروں گی بھی اپنے ملک کیلئے ،اور جلسے میں خطاب کے فوری بعد ظالموں نے ظلم کی انتہا کر دی ،ملک پاکستان کی بہادر بیٹی کی جان لے لی گئی بے نظیر کو شہید کر دیاگیا ۔واقعہ کچھ یو ںپیش آیا کہ 27دسمبر 2007ء کو جب بے نظیر بھٹو لیاقت باغ میںعوامی جلسہ سے خطاب کے بعد اپنی گاڑی میں بیٹھ کر اسلام آباد آرہی تھی کہ پیپلز پارٹی کے کارکن بڑی تعدادمیں پرجوش نعرے بازی کر رہے تھے۔
بے نظیر کارکنوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے گاڑی کی چھت سے باہر نکل رہی تھی کہ نامعلوم شخص نے ان پر فائرنگ کر دی اورانہی المحات بے نظیر کی گاڑی کے کچھ فاصلے پرایک زور دار دھماکہ بھی ہوا جس میں ایک خود کش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا دھماکے میں بے نظیر شدید زخمی ہو گئی اور بے نظیر کی کی گاڑی کو بھی شدید نقصان پہنچا لیکن گاڑی کا ڈرائیور گاڑی کو اسی حالت میں دوڑا کر بے نظیر کو راولپنڈی جنرل ہسپتال لے گیا جہا ں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے بے نظیر خالق حقیقی سے جا ملی ،بے نظیر بھٹوکو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئی ،پہلی بار آپ 1988ء میں پاکستان کی وزیراعظم بنیں لیکن اس وقت کے صدر پاکستان غلام اسحاق خان نے حکومت پر کرپشن کے الزامات لگا کر وقت سے پہلے ہی برخواست کرتے ہوئے نئے الیکشن کااعلان کردیابے نظیر بھٹو 21جون 1953ء سندھ کے مشہور سیاسی بھٹو خاندان میں پیدا ہوئیں ، 21جون 1953ء کو کراچی میں ذولفقار علی بھٹواور نصرت بھٹو کے گھر ننھی پری نے آنکھ کھولی جس کا نام بھٹو صاحب نے اپنی بہن کی نسبت بینظیر بھٹو رکھا ذولفقار علی بھٹو اپنی بیٹی کو پیار سے پنکی کہہ کر پکارتے تھے۔
ضیاء الحق کے مارشل لاء اوربھٹو حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد بینظیر بھٹو نے سیاست کے کارزار میں قدم رکھاایم آر ڈی کے پلیٹ فارم سے حکومت کے خلاف تحریک چلائی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں ،جلا وطنی کی زندگی بھی گزاری 1986ء میں جلاوطنی ختم کرتے ہوئے لاہور ایئر پورٹ پہ قدم رکھا ان کا تاریخی استقبال کیا گیا بے نظیر بھٹو نے 73.1969ء کیمبرج میں ریڈمکف کالج ،میسا چوسٹس سے بی اے ڈگری لی اور 77.1973ء تک اکسفورڈیونیورسٹی میں زیر تعلیم رہیں۔بینظیر بھٹو کے والد ذوالفقار علی بھٹو 77.1971ء وزیر اعظم رہے،1977ء میں جنرل ضیاء الحق نے ذولفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت بر طرف کردی ،1979ء ذولفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔
اپنی ننھی پری بینظیر بھٹو کی سیاسی تربیت ذوالفقار علی بھٹو نے بچپن میں ہی شروع کر دی تھی ،ذولفقار علی بھٹو کی سیاسی تربیت میں پروان چڑھنے والی بینظیر بھٹو 2مرتبہ پاکستان کی وزیر اعظم منتخب ہوئیں ،اور بہادر خاتون نے اپنا ،اپنی فیملی سمیت وطن عزیز پاکستان کا نام روشن کیا ،محترمہ بے نظیر بھٹو کو پاکستان کے دوسرے خطوں کی طرح سرائیکی وسیب سے بے حد محبت تھی اور سرائیکی وسیب والے بھی جتنی محبت بے نظیر سے کرتے تھے اتنی محبت کسی اور لیڈر سے نہیں کرتے تھے۔
قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد شہید ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو ایسے لیڈر تھے جنہو ں نے بے شمار قربانیاں دے کر پاکستان کو نا قابل تسخیر بنایایہ وہ لیڈر ہیں جن کا نام آج بھی پاکستانی قوم کے دلوں میں زندہ ہے اور ہمیشہ رہے گا ،،چراغ جلتے ہے روشنی کرنے کیلئے بائو جی،چرا غوں کولوگ کیو ں حسد کرکے بجا دیتے ہیں،، دین اسلام کا سنہری اصول ہے کہ حسدنیکیوں کو اسی طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو جلاکر راکھ کر دیتی ہے۔