بے نظیر بھٹو بحیثیت ماں ایک کامیاب ماں تھیں. آکسفورڈ کی تعلیم یافتہ اور پرکشش بے نظیر بھٹو 1996میں گینینز بک آف دی ورلڈ ریکارڈ کے مطابق دنیا کی مقبول ترین سیاستدان تھیں اور جب ٹائم میگزین نے دنیا کی 100با اثر خواتین کی فہرست مرتب کی تو اس میں بھی بے نظیر کا نام جگمگا رہا تھا۔
اپنی سحر انگیز شخصیت کے باعث وہ دنیا کی خوبصورت ترین خواتین میں بھی شامل ہوئیں اوریہ سلسلہ ابھی رکا نہیں۔ 2009میں ورلڈ پاپولیشن فیڈریشن نے بیسٹ مدر ایوارڈ اس بہترین ماں کے نام کیا جسیلوگ شہید جمہوریت کہتیہیں۔
راہ وفا میں شہید ہونے کا اعزاز تو مل گیا لیکن کسی نیاس ماں کے دکھ کو محسوس نہ کیا جو اپنی زندگی کےآخری لمحوں میں اپنے بچوں سے بہت دورتھی۔ نہ کوئی سرگوشی نہ آخری نصیحت نہ کوئی پیغام ۔ بس جانے کی جلدی تھی۔
بلاول کا دکھ بختاور کے انسو اور آصفہ کی حیران نگاہیں آج بھی سوال کرتی ہیں۔ ابھی تو ہم نیاپنی ماں سے بہت سی باتیں کرنا تھیں۔ ابھی تواس سے پوچھنا تھا۔
کیسی لگی وطن کی ہوا مگر سب سوال تشنہ رہ گئے اور وہ ماں اپنےآخری سفر پر چل پڑیں جسے مصروف ترین زندگی میں سب سے خوبصورت وہ وقت لگتا تھاجب وہ اپنے بچوں کے درمیان ہوتی تھیں۔
سربراہ مملکت کی ذمہ داری ہویا ایک عورت کی حیثیت سے ماں کے رتبے پر فائز ہونیکی سرشاری۔ اپنے بابا کی پنکی کو ہر لمحے مشقت کی راہداری پر چلنا پڑا وہ عظیم قائد توتھیں لیکن وہ عظیم ماں بھی بنناچاہتی تھیں۔
اپنی پہلی انتخابی مہم کے دوران وہ بلاول کی تخلیق کے صبر آزما لمحوں سے گزر رہی تھیں اور اس دوران ان کی ہمت اور استقامت حیران کن تھی۔
وہ پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بن کرجب پہلی بار ماں بنیں توان کیچہرے کی چمک اور آنکھوں کے رنگ بتاتے تھے کہ یہ خوشی دنیا کی ہر دولت سے بڑھ کرہے۔ عورت فطرتا ماں ہوتی ہے دنیا کی مدبر سیاستدان کی گھریلو زندگی کا یہ روپ بھی بلاکا دلکش تھا۔
دوسری بار وزارت عظمی کیعہدے پر فائز ہوئیں تو بختاورگود میں تھی۔ ماں بننے کا اعزاز ہر ایوارڈ سے بڑھ کرتھا۔
مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم کو اس بات کا ہمیشہ ملال رہا کہ وہ اپنے بچوں کو اتنا پیار نہیں کر پائیں جتنا ان کاحق بنتا تھا لیکن وہ دور اندیش ماں تھیں جانتی تھیں بچوں کواپنی زندگی کا ہر فیصلہ ماں کے بنا کرناہوگا۔
آج بلاول بختاور اور آصفہ کی زندگی میں ان کی ماں نہیں ہے لیکن ماں کا دیا ہوا صبر ان کی طاقت بن چکا ہے اور دہشت گردوں سے یہ سوال کرتا ہے۔ کیا کوئی اتنا سفاک ہوسکتا ہے کہ کسی ماں کو اس کے بچوں سے آخری سرگوشی بھی نہ کرنے دے۔