تحریر: ع۔م۔بدر سرحدی آج ٨ برس بعد پھر سے بینظیر بھٹو قتل سے متعلق اہم گواہ امریکی صحافی مارک سیگل نے ویڈیو لنک پر اپنا بیان ریکارڈ کرایا جس سے اِس مردہ کیس میں جان پڑ گئی، اگر یہ اہم گواہ تھا تو زرداری کے عہد میں اقوام متحدہ انکوائری کمیشن کے سامنے پیش نہ کرنے کی کیا حکمت عملی تھی۔
جبکہ یہ کمیشن بلاول بھٹو زرداری کے مطالبے پر تشکیل دیا گیا تھا اور اہم شواہد پر مبنی کمیشن کی رپورٹ پر مٹی ڈال دی گئی کیوں؟ مارک سیگل نے کہا بیظیر بھٹو نے انہیں بتایا تھا کہ پرویز مشرف نے بینظیر بھٹو کو دھمکی آمیز کال کی تھی….مجھے ای میل کر کے کہا اگر مجھے قتل کیا گیا تو زمہ دار پرویز مشرف ہونگے،٢٦ اکتوبر ٢٠٠٧ کو مجھے ای میل ملی جس کا سبجیکٹ تھا موسٹ ارجنٹ بی بی نے کہا تم دلیر اور قابلِ اعتماد ہو اِس لئے تمہیں ای میل کر رہی ہوں قانونی ماہرین کی کیا رائے ہوگی اب یہ مقدمہ کس طرف جائے گا، اس کا تعلق موثر شہادتوں سے ہے لیکن ایک بات جو مجھ جیسے احمق کو بھی یہ بیان پڑھ کرہنسی بھی آئی اور افسوس بھی کہ اگر یہ سچ ہے تو اس کا مطلب یہ ہوأ کہ پاکستان میں اپنے خاندان اور خاص کر زندگی کے ساتھی کے علاوہ کسی پر بھی اعتماد نہیں تھا ،کہ ایک امریکی کو ان سب پر فوقیت دی …..اگلے دن سابق صدرپرویز مشرف نے ایک تقریب میں کہا کے ،کہ امریکی صحافی نے جو میرے حوالے سے بیان دیا وہ جھوٹ کا پلندہ ہے میں نے بینظیر سے فون پر کبھی بات نہیں کی۔
تاہم جب وہ دوبئی آئیں تو انہیں حملہ آوروں کے حوالے سے بتایا تھا اچھا ہوتا کہ جناب پرویز مشرف دوبئی میں ہونے والی بات چیت کو کھل کر بیان کر دیتے کہ بینظیر سے کیا اور کیسی ڈیل ہوئی جس کے نتیجے میں بد نام زمانہ این آر او جاری ہوأ ،بینظیر بھٹو سے یہ ڈیل سیاسی تھی یا اِس میں ذاتیات ملوث تھی اور کہ اس ڈیل کا سہولت کار کیا امریکا تھا یا کوئی اور ملک یا شخصیت تھی ،مگر آج یہ کوئی راز نہیں کہ ڈیل کس نے کرائی اور کیا ڈیل ہوئی،اگر تو جناب پرویز مشرف جہاں یہ کہتے ہیں کی امریکی صحافی مارک سیگل کا بیان جھوٹ کا پلندہ ہے وہاں ڈیل کو بھی کھل کر بیان کردیں کہ زہنوں میں پائے جانے والے شکوک و شبہات صاف ہو جائیں ….،نجم سیٹھی نے بھی کہا کہ بینظیر بھٹو نے مجھے کہا کہ مشرف نے انہیں سکیورٹی دینے سے معذرت کر لی ، جبکہ سکیورٹی کی فراہمی ،کراچی میں سندھ حکومت کی زمہ داری تھی اور راولپنڈی میں پنجاب حکومت کی اگر سکیورٹی کا بہتر انتظام نہ ہوتا تو بینظیر بھٹو کو جلسہ گاہ ہی میں قتل کیا جاسکتا تھا اور اگر وہ گاڑی سے سر باہر نہ نکالتی تو پھر بھی وہ محفوظ تھیں اِس لئے یہ کہنا کہ مناسب سکیورٹی نہیں دی گئی بے بنیاد الزام بلکہ حقائق کو چھپانے کی سازش کہی جا سکتی ہے۔
Pervez Musharraf
اُس وقت القائدہ اور پاکستانی طالبان کا گٹھ جوڑ اور دہشت گرد کاروائیاں اپنے عروج پر تھیں طالبان بینظیر بھٹوکو خاتون کے حوالے سے اور مسلکی مخالفت کے ساتھ وہ اسے امریکی آلہ کار سمجھتے تھے اسے قتل کرنا اُن کا ایجنڈا تھا ، اور پرویز مشرف پر بھی دو حملے ہو چکے تھے …..،راقم نے اپنے مضمون میں جو ٢٧ دسمبر کے چنددن بعد لکھا ”…..اس وقت بھی سیاست دانوں کے بیانات کی تان یہیں آکر ٹوٹ جاتی کہ اس قتل کا زمہ دار پرویز مشرف ہے مگر پرویز مشرف کیو ں ؟ یہ قتل ایسے وقت ہی میں کیوں ؟جب انتخابات کاوقت قریب تر سیاسی سرگرمیا ں اپنے عروج پر ،قتل سے متعلق متضاد بیانات پہلی اطلاع یہ تھی کہ تین گولیاں لگیں دوسری خبر یہ کہ سن روف کا لیور لگنے سے سر پر شدید گہرا زخم آیا جو موت کا سبب بنا ان متضاد اطلاعات نے نا صرف سوالات کو جنم دیا اس قتل کو گہری سازش کا نتیجہ قرار دیا کہ ڈرائینگ روم میں کیا کھچڑی پک رہی ہے ،کہ یہ سوال بھی اہم کہ بی بی جیسی بین الاقوامی شخصیت جو دو مرتبہ ملک کی وزیر آعظم اور مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر آعظم کا بھی اعزاز رکھتی کو انتہائی عجلت میں سپرد خاک کیا گیا کیوں ؟پوسٹ مارٹم نہیں کیا گیا جو انتہائی ضروری تھا….یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اُسے قریب سے نشانہ بنایا گیا کیا اس کے چاروں طرف پھیلے لوگ اندھے تھے یہ قتل امریکی صدر جان ایف کینڈی١٩٦٧ کے قتل سے مماثلت رکھتا ہے اُسے کار میں بیٹھنے کے بعد دور سے نشانہ بنایا گیا تھا۔
بینظیر بھٹو کو بھی کسی عمارت سے تربیت یافتہ مشاق نشانہ باز نے نشانہ بنایا ،نشانہ سر کا لیا گیا کہ یہی غیر محفوظ تھااور یہ سازش کسی ایک دماغ کی اختراع نہیں..” میرا نہیں خیال کے یہ سوالات زیر بحث آئے ہوں،بی بی نے سر کیوں باہر نکالا؟ پوسٹ مارٹم کیو نہ ہوأ؟فوری سپرد خاک کیوں کیا گیا ؟بی بی نے زرداری اور بیٹے کی بجائے امریکی شہری کو کیوں راز داں بنایا ؟ یہ سوال اکثر میڈیا میں گردش کرتا رہا کہ زرداری حکومت نے پانچ برس تک کوئی پیش رفت نہیں کی اُسے شامل تفتیش نہیں کیا گیا کیوں؟
بی بی نے پرویز مشرف سے خطرہ محسوس کیا کیوں ؟پرویز مشرف کو بی بی سے کیا خطرہ ہو سکتا تھا کہ اُسے قتل کرایا جانا ضروری تھا، جبکہ اس کے لئے میاں نواز شریف سے خطرہ ہو سکتا تھا کہ اُن سے اقتدار چھین کر پابند سلاسل کیا اور پھر مع اہل و عیال ملک بدر کیا، حالانکہ تاریخی سچ یہ ہے کہ اُس وقت پرویز مشرف بر طرف ہو چکا تھا اور وہ فضا میں محو پرواز تھا جب وہ زمین پر آیا تو تمام کام مکمل ہو چکا تھا ،میاں صاحب سے خطرہ فطری ہو سکتا ہے، کہ انتقام انسان کی فطرت میں ہے، پہلا قدم اُٹھا کر گر جانے والا بچہ روتا ہے کیوں وہ نہ سمجھتے ہوئے بھی سمجھتاہے مجھے کسی نے مارا ہے اور وہ جسے ہم رونا سمجھتے ہیں در اصل وہ انتقام کے لئے طاقت کو پکارتا ہے کہ مجھے مارا گیا آ کر انتقام لیا جائے یہ انتقام ہی کا جذبہ تھا جس نے ماضی میں انصاف کے اجزائے ترکیبی کو جنم دیا اور انصاف کا خوبصورت نام پایا۔