اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ میں سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو قتل کیس میں پولیس افسران کی ضمانتوں کے خلاف درخواستوں پر سماعت جاری ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ کیس کی سماعت کررہا ہے جب کہ کمرہ عدالت میں چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری، سابق وزیر اعظم راجا پرویز اشرف، فرحت اللہ بابر، مہرین انور راجا اور پیپلز پارٹی کے دیگر رہنماء موجود ہیں۔
یاد رہے کہ انسداد دہشت گردی عدالت نے سابق ایس پی خرم شہزاد اور سابق سی پی او سعود عزیز کو مجموعی طور پر 17، 17 سال قید کی سزا کا حکم سنایا تھا تاہم ہائیکورٹ نے سزا یافتہ ملزمان پولیس افسران کی ضمانت منظور کرلی تھی۔
سماعت شروع ہوئی تو وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ درخواست گزار رشیدہ بی بی کا انتقال ہوگیا ہے۔
اس موقع پر پولیس افسران کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ درخواست گزار کے انتقال سے درخواستیں غیر موثر ہو چکی ہیں، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا بیوہ کے لواحقین نے درخواست دائر کر رکھی ہے، گزشتہ سماعت پر رشیدہ بی بی کی بیٹی فریق بن گئی تھی۔
عدالت نے پولیس افسران کی درخواست غیر موثر قرار دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے درخواست گزار کے وکیل کو دلائل جاری رکھنے کی ہدایت کی۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا ‘ضمانتیں کس بنیاد پر دی گئیں، اسکاٹ لینڈ یارڈ نے بھی تحقیقات کیں، انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت ضمانتیں نہیں لی جا سکتیں اور آرٹیکل 199 کے تحت ہائیکورٹ کے اختیارات پر قدغن نہیں لگائی جا سکتی’۔
بینچ کے سربراہ نے کہا بے نظیر بھٹو کو حفاظتی حصار دیا جانا تھا اور سی پی او ذمہ دار تھا، سعود عزیز نے ایس ایس پی اور دیگر نفری کو بھجوا دیا، بی بی کو پوائنٹ بلینک رینج سے گولی ماری گئی، انہوں نے کراچی اترنے سے پہلے کچھ لوگوں کو نامزد بھی کیا تھا۔
جسٹس آصف سعید نے استفسار کیا ‘کیا ملزمان کی ضمانت کو اسٹیٹ نے چیلنج کیا’ جس پر وکیل لطیف کھوسہ نے کہا اسٹیٹ نے ملزمان کی ضمانت کو چیلنج کر رکھا ہے اور میں نے بھی چیف جسٹس صاحب کو کہا کہ ہماری درخواست کو سماعت کے لیے مقرر کریں تاہم ہماری عدالت نے ایک مرتبہ بھی سماعت مقرر نہیں کی۔
لطیف کھوسہ نے کہا ملزمان نے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پوسٹ مارٹم بھی نہیں کروایا، انسداد دہشت گردی عدالت سے 17 سال قید کی سزا کے ملزمان کو ضمانت کیسے دی جاسکتی ہے۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا سی پی او پہلے دن سے ہی سازش میں ملوث تھا، ابھی حکم نامے کی تحریر کی سیاہی خشک نہیں ہوئی کہ ضمانت پر رہائی دی گئی، پرویز مشرف بھی اسی مقدمے میں نامزد ہے جس نے ججز کو بھی بند کیا۔
جسٹس آصف سعید نے ریمارکس میں کہا برطانوی نشریاتی ادارے کی ڈاکومینٹری رپورٹ ہمارے تحقیقاتی اداروں سے لاکھ درجہ بہتر تھی۔
وکیل لطیف کھوسہ نے بینچ کے سربراہ سے مکالمے کے دوران کہا آپ کہتے ہیں کہ شک کی بنیاد پر ضمانتیں منسوخ کی گئیں، ٹرائل کورٹ نے اس کیس کو سنجیدہ ہی نہیں لیا، اس خطے کی سب سے وژنری لیڈر کو بے رحمانہ طریقے سے قتل کیا گیا، اسکاٹ لینڈ یارڈ نے ملزمان کو قصور وار ٹھہرایا اور جنرل پرویز مشرف سب کچھ کنٹرول کررہے تھے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا پرویز مشرف کے سب کچھ کنٹرول کرنے کی بات فرضی ہے جس پر وکیل نے کہا واقعاتی شہادتوں میں ثبوت موجود ہیں۔
جسٹس کھوسہ نے کہا بی بی کی شہادت میرے لیے بھی صدمے کا باعث بنی، جب کرائم سین دھویا گیا تو میں نے دوستوں سے کہا یہ کیا کر رہے ہیں، شک کبھی ثبوت کا متبادل نہیں بن سکتا۔
وکیل لطیف کھوسہ نے اس پر کہا کہتے ہیں ملزم عدالت کا لاڈلا بچہ ہوتا ہے، یہ کہہ کہہ کر ہم نے قانون کا بیڑا غرق کردیا ہے، ہائی کورٹ نے اس مقدمے کو ایسے لیا جیسے چوری کا کیس ہو جس پر جسٹس آصف سعید نے کہا فیصلے کے لیے ثبوت درکار ہوتے ہیں۔
یاد رہے کہ 31 اگست 2017 کو راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے بے نظیر بھٹو قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مقدمے میں نامزد 5 ملزمان کو بری، 2 پولیس افسران کو سزا جب کہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو اشتہاری قرار دیتے ہوئے ان کی جائیداد کی قرقی کا حکم دیا تھا۔
عدالت نے پانچ گرفتار ملزمان رفاقت، حسنین، رشید احمد، شیر زمان اور اعتزاز شاہ کو بری کرنے کا حکم دیا تھا۔
سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو دسمبر 2007 میں انتخابی جلسے کے بعد راولپنڈی کے لیاقت باغ کے باہر ایک خودکش حملے میں شہید کر دیا گیا تھا۔
2008ء کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی لیکن اس دوران سابق وزیراعظم کے مقدمہ قتل میں کوئی حوصلہ افزا پیش رفت نہ ہوسکی۔
بے نظیر بھٹو کے قتل کیس کی 300 سے زائد سماعتیں ہوئیں جبکہ دوران سماعت انسداد دہشت گردی عدالت کے 6 ججز بھی تبدیل ہوئے۔
استغاثہ کے 141 میں سے67 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے گئے جب کہ دیگر گواہوں کو غیر ضروری قرار دے کر ترک کیا گیا۔