ہم تیرے بے نظیر سزا وار ہو گئے قاتل ترے ہی قوم کے غمخوار ہو گئے
اپنے کالم کی ابتدا ء میں نے آج اپنے ہی ایک شعر سے کرنے کی سعی کی ہے جو محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے حوالے پیدا شدہ حالات میں قوم کے دلی جذبات کی عکاسی کر رہا ہے ، پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کو 10برس بیت گئے ،اس طویل عرصے میں اُن کی شہادت کا عظیم سانحہ کھلی کتاب کی طرح عیاں ہے لیکن دانستہ ”سربستہ راز” بناہوا ہے ۔ اس حوالے سے سازش کے خد و خال اور اس کے تمام کردار وں سے دنیا اچھی طرح آشناہو چکی ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ بی بی بے نظیر بھٹو کے شوہر نامدار مرد خُر آصف علی زرداری ،بی بی کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری سمیت اُن کے تمام وارث اس معاملے میں ”خاموش تماشائی ” کا کردار ادا کر رہے ہیں ، راولپنڈی میں بی بی شہید کے قتل کے الزام میں چلنے والے کیس میں بھی ورثا ء نے کوئی دلچسپی نہ لی جس کی وجہ سے اس کیس میں سرکاری طور پر” ٹوٹل” پورا کرنے کیلئے پکڑے جانے والے ملزمان اعتزاز وغیرہ کو انسداد دہشت گردی عدالت نے طویل عرصے بعد کیس چلنے کے بعد ناکافی شہادتوں کی بناء پر شک کا فائدہ دے کر برّی کر دیا جبکہ سیکورٹی میں غفلت برتنے اور لاپرواہی کے جرم میں ایس پی او سعود عزیزاور ایس ایس پی خرم شہزاد کو 17,17سال قیدکے ساتھ بھاری جرمانے کی سزا سنا دی گئی ۔جنہیں بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بنچ نے اپیل میں ضمانتی مچلکوں پر رہائی کا حکم دے دیاگیا ۔اس فیصلے کے بعد مرد خُر آصف علی زرادری نے اشک شوئی کرتے ہوئے بی بی کے قتل کاسارا الزام سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے سر تھوپ دیا جس کے جواب میں جنرل پرویز مشرف نے یہ انکشاف کر ڈالا کہ بی بی بے نظیر بھٹو کے ساتھ ساتھ میر مرتضیٰ بھٹو کا قتل بھی آصف علی زرداری نے ہی کروایا ہے۔
ایسی صورتحال میں بہت سے سوالات عوام و خواص کے ذہنوں میں پیدا ہونے لگے کہ بی بی کے قتل کیس میں اُن کے ورثاء نے کیوں دلچسپی نہ لی ، اور اگر پرویز مشرف ہی کو بی بی کا قاتل مان لیا جائے تو پھر آصف علی زرداری نے اپنی شریک حیات کے قاتل کو کیوں پورے فوجی اعزاز اور پروٹوکول کے ساتھ رخصت کیا ۔ اگر پرویز مشرف ہی بی بی کے قتل کے اصل مجرم تھے تو پھر آصف علی زرداری کو چاہئے تھا کہ وہ اپنی شریک حیات کے قاتل کو اپنے ہاتھ سے گولی مار دیتے ۔لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ اُن سے اقتدار لینے کے بعد بھی 5سال تک حکومت کے مزے لوٹتے رہے ۔ اور کسی بھی موقع پر بی بی کے قتل میں ملوث عناصر کا ذکر تک کرنا مناسب نہ سمجھا اور نہ ہی گذشتہ 10سالوں کے دوران انسداد دہشت گردی عدالت میں چلنے والے کیس کی پیروی کرنے کی زحمت گوارا کی ۔ادھر پیپلز پارٹی کے رہنماء اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے سکھر میں ایک تقریب میں قومی اداروں سے ایک بار پھر یہ سوال اٹھایا ہے کہ ملک میں دیگر لوگوں کیلئے ریڈ وارنٹ نکالے جا رہے ہیں مگر پرویز مشرف کیلئے” ریڈ وارنٹ” کیوں نہیں نکالے جا رہے ہیں ،بے نظیربھٹو کی شہادت میں ان کا ہاتھ ہے جسے حکومت نے بڑے آرام سے باہر جانے دیا اب عدلیہ کا یہ کام ہے کہ وہ اس معاملے کو کس طرح دیکھتی ہے۔
ایک بات تو طے ہے کہ پاکستان میں پہلے وزیر اعظم خان لیاقت علی خان سے لے کر بے نظیر بھٹو تک ہمارے کتنے ہی قائدین ”نادیدہ قوتوں” کی سازشوں سے راعی ملک عدم ہو گئے لیکن آج تک ان سانحات کے ذمہ دار کسی ایک فرد کو بھی پھانسی پر لٹکایا جا سکا اور نہ ہی ان سازشوں کے بارے میں عوام کو آگاہ کیا جا سکا بلکہ سازشیوں کو اہم ترین عہدوں پر بٹھایا جاتا رہاہے ، بے نظیر بھٹوخود وزیر اعظم ہوتے ہوئے اپنے بھائی میرمرتضیٰ بھٹوکے قاتلوں کو کیفر کردار تک نہ پہنچا سکیں جبکہ اُن کے بھائی کے قتل میں ملوث عناصر انہی کی آستینوں میں پلتے رہیں۔ اور بلآخر انہیں ہی ڈس لیا ۔اس قسم کے سانحات بارے تمام سوالوںکے جواب ہمارے حکمرانوں کے پاس ہیں اور نہ ہی پاکستان میں کوئی ایسا”مرد حُر ”پیدا ہوسکا کہ جو ”نادیدہ قوتوں” کے کارناموں بارے اِن سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانے کی جرات کر سکے المیہ یہ ہے کہ اس سانحہ کے چشم دیدگواہان کوایک ایک کرکے قتل کرا دیا گیا یاوہ مر گئے ۔بی بی کے نام پر ”مرد حُر” 5سال اس ملک کے صدربن کر سیاہ و سفید کے مالک بنے رہے ، بی بی کو ”بہن ” کہہ کر آنسو بہانے والے بھی اپنے دور حکومت میں آج تک قاتلوں کو اپنے انجام تک نہ پہنچا سکے۔الٹا عدالت اعظمیٰ سے آقامہ کی بنیاد پر نااہل قرار دئیے جانے پر ”مجھے کیوں نکالا”کا سوال دنیا والوں سے پوچھتے پھر رہے ہیں ،کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ ”بی بی کو قتل کیوں کیاگیا ،کس نے کیا ۔۔؟ اس سانحہ پر اٹھائے گئے متعد د سوالات ہنوز تشنہ ہیں اور شاہد تا قیامت رہیں گے کیونکہ وطن عزیز میں سازشوں کے تانے بانے بننے والے ”نادیدہ ہاتھ”کی مضبوطی مسلمہ ہے جس کا مقابلہ کرنا ایک دشوار امر ہے۔
معروف تجزیہ نگار ڈاکٹر شاہد مسعود نے بھی بے نظیر بھٹو شہید کے قتل کی سازش کے حوالے سے اہم انکشافات کرتے ہوئے عزیربلوچ نامی شخص کا ذکر کرکیا تھا اور بعض حقائق آشکارکئے تھے۔مگراس انکشاف کو بھی دو سال گذرچکے ہیں مگر کوئی پیش رفت نہ ہوسکی ۔بی بی کے قتل کے شواہد جان بوجھ کر ملی بھگت سے ضائع کئے گئے تاکہ مجرموں تک رسائی ممکن نہ ہو سکے کیونکہ اس کام میں غیروں سے زیادہ اپنوں کا ہاتھ ہے۔ بے نظیر بھٹو کے ہونہار اور باصلاحیت صاحبزادے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری کے دل و دماغ میں اپنے والد آصف علی زرداری کی خواہش پر وزیر اعظم بننے کا ارمان انگڑائیاں لے رہا ہے ، وہ گذشتہ10سال سے اپنی والدہ کے قتل پر ”چُپ کا روزہ ” رکھے ہوئے ہیں ۔انہیں بھی بی بی کے قاتلوں کو اپنے انجام کو پہنچانے کی قطعاً کوئی فکر نہیں۔
بی بی بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کو ”ہائی جیک” کرنے کی وجہ سے پورے پاکستان میں اس کا جنازہ نکل چکا ہے ، قائد عوام کی پارٹی جوکبھی سندھ سے زیادہ پنجاب میں مقبول اور فعال تھی اور جسے بڑے بڑے آمرختم نہ کر سکے تھے آج اسی پنجاب کی حد تک تو گویا فنا ہو کر رہ گئی ہے،آصف زرداری و دیگر مفاد پرست قائدین کی عاقبت نااندیشی اور جیالوں سے روا رکھی جانے والی روش کی وجہ سے پارٹی مقبولیت کا گراف کافی حدتک زمین بوس ہو چکاہے لیکن قائدین اُن وجوہات کا ادراک کرنے پر کوئی توجہ نہیں دے رہے ۔”مفاہتی سیاست” کا بت بھی پاش پاش ہوچکا ہے کیونکہ آصف زرداری نے کھلے عام اس بات کا اعلان کیا ہے کہ وہ نواز شریف کے ساتھ اب نہیں چلیں گے۔
آج بی بی بے نظیر بھٹو شہید کو ہم سے جدا ہوئے 10برس بیت گئے ہیں لیکن لیاقت باغ گیٹ سے نکلتے وقت ان کے ساتھ پیش آنے والا یہ سانحہ اب بھی ہمیں غم زدہ اور نمناک کئے ہوئے ہے ، جس میں لیاقت باغ سے نکلتے وقت لوگوں کو منتشر کرنے کیلئے ہماری عظیم قائد پر گولی چلائی گئی ،ساتھ ہی پے در پے دھماکے کئے گئے یوں جیالوں کے اس ہجوم میں مفاد پرست سازشی عناصر اپنی واردات میں کامیاب ہو گئے ۔اگر یہ سازش دشمنوں نے کی ہوتی تو شاہد دل پر زیادہ بوجھ نہ ہوتا لیکن المیہ یہ ہے کہ اس سانحے میں اپنوں نے ہی سازش کے تانے بانے بُنیے اور کمال ہوشیاری سے اپنا کام کر گئے ۔عدالتی انصاف کی حقیقت تو یہ ہے کہ کسی بھی مجمع ، ہجوم یا جمگٹھے میںہونے والی واردات میں کوئی بھی بڑے سے بڑا جج کسی مجرم کو پھانسی کی سزا نہیں سنا سکتا کیونکہ ایسے سانحہ میں انسانوں کاایک سمندر ہوتا ہے اس لئے پولیس سمیت دیگر تفتیشی اداروں کیلئے کسی کو قاتل ثابت کرنا انتہائی مشکل امر ہوتا ہے۔
اس لئے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بے نظیر بھٹو کے قتل میں بھی کبھی کسی مجرم کو سزا نہیں ہو گی ۔کیونکہ یہاں بھی قاتل نے خود اپنے ہاتھ سے بی بی بے نظیر کا خون نہیں کیا بلکہ اس کام کیلئے ”سہولت کاروں”کی خدمات حاصل کی گئیں تھیں ۔لہذاء ہمیں یہ بات ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ یہ راز۔۔ہمیشہ راز ہی رہے گا ،بلاول زرداری خود بھی اس ملک کے وزیر اعظم بن جائیں تو اپنی والدہ محترمہ کے قاتلوں کو کبھی کیفر کردار تک نہیں پہنچا سکتے ،کیونکہ قاتلوں کے ڈانگرے ”نادیدہ قوتوں” سے بھی اوپر تک ملے ہوئے ہیں جنہیں ہاتھ ڈالنا کسی کے بس کی بات نہیں ۔ حصول اقتدار کی بساط سجانے کیلئے آصف علی زرداری پوری طرح سرگرم عمل ہو چکے ہیں اور انہیں قوی اُمید ہے کہ آئندہ الیکشن میں سند ھ کے ساتھ ساتھ پنجاب میں بھی پیپلز پارٹی ہی کامیاب ہو گی۔ان کی تمام تر توجہ اپنے صاحبزادے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول زرداری کو اس ملک کا وزیر اعظم بنانے پر مرکوز ہے اور اس کیلئے وہ جلد یا بدیر اپنے ”پتے” ضرور سامنے لائیں گے ، انہیں اُمید ہے کہ وزیر اعظم کا” ہما ”بلاول زرداری کے سر ہی بیٹھے گا ۔ رب کائنات کے فیصلے بھی کبھی کبھی انسان کو حیران و ششدر کر کے رکھ دیتے ہیں ،ممکن ہے کہ وہ عظیم ربّ بلاول زرداری پرہی مہربان ہو جائے ،ایسے میں جیالوں کو ملنے والی خوشی یقیناً قابل دید ہو گی لیکن آج ہمیں سوچنا ہوگا کہ بی بی کی روح ہم سے کس قدر خوش اور راضی ہے۔۔؟
بلاول زرداری اس برسی پر صدق دل سے عہد کریں کہ بی بی بے نظیر بھٹوکے قتل کی سازش کو بے نقاب کریں گے اور قاتلوں کو ضرور کیفر کردار تک پہنچائیں گے ،اقتدار کی تمنا اچھی بات سہی لیکن یہ پھولوں کی سیج نہیں ، اس میں کانٹے ہی کانٹے ہیں،اس لئے انہیں بہت سوچ سمجھ کر سیاست کا کھیل کھیلنا ہوگا ،بلاشبہ بھٹو خاندان ہی پیپلز پارٹی کا اصلی وارث ہے اور اس پرمیر شاہنواز بھٹو اور میر مرتضی بھٹو کے بعد اُن کے بچوں فاطمہ بھٹواور ذوالفقار علی بھٹو جونیئرکا حق ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ بلاول زرداری اپنے نانا اور اپنی والدہ کے نام پر سیاست کرتے ہوئے بھٹو خاندان کے حقیقی وارثوں کو بھی ساتھ لے کر چلیں کیونکہ انسانی عظمت اور حق وانصاف کا یہی تقاضا ہے ،ہمیں قوی یقین ہے کہ اگر انہوں نے فراخدلانہ مفاہتی خطوط پر پیپلز پارٹی کا تشخص بحال کرنے پر توجہ دی تو یقیناً آئندہ الیکشن میں پیپلز پارٹی پورے ملک میں ایک مضبوط قوت بن کر ابھرے گی اور بلاول زرداری کے اس کارنامے سے جہاں اُن کی والدہ محترمہ کی روح کو تسکین ملے گی اور اُن کی کامیابی کا سفر بھی اپنے منطقی انجام کوپہنچے گاوہاںمفاد پرستوں کی وجہ سے جیالوں میں پائی جانے والی مایوسی کے بادل بھی چھٹ جائیں گے اور جیالوں کی اکثریت بھٹو خاندان اور بی بی کے مشن کی تکمیل میں اُن کے شانہ بشانہ ہو گی۔
Syed Arif Saeed Bukhari
تحریر : سید عارف سعید بُخاری Email: arifsaeedbukhari@gmail .com