تحریر : ڈاکٹر بی اے خرم سابق وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کی دوسری بیوی بیگم نصرت بھٹو کے ہاں چار بچے بے نظیر بھٹو، میر مرتضی بھٹو، صنم بھٹو اور شاہنواز بھٹو پیدا ہوئے ان میں بے نظیر بھٹو سب سے بڑی تھیں صنم بھٹو ابھی حیات ہیں اور دیار غیر میں غیر سیاسی زندگی گزار رہی ہیں باقی تینوں بچے غیر طبعی موت کا شکار ہوئے میر مرتضی بھٹو اپنی بڑی بہن کے دوسرے دور اقتدار میں دن دیہاڑے بھرے بازار میں قتل کر دیئے گئے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی بڑی صاحبزادی بینظیربھٹو 21 جون، 1953ء میں سندھ کے مشہور سیاسی بھٹو خاندان میں پیدا ہوئیں۔
بینظیر بھٹو نے ابتدائی تعلیم لیڈی جیننگز نرسری اسکول اور کونونٹ آف جیسز اینڈ میری کراچی میں حاصل کی۔ اس کے بعد دو سال راولپنڈی پریزنٹیشن کونونٹ میں بھی تعلیم حاصل کی، جبکہ انھیں بعد میں مری کے جیسس اینڈ میری میں داخلہ دلوایا گیا۔ انھوں نے 15 سال کی عمر میں او لیول کا امتحان پاس کیا۔ اپریل 1969ء میں انھوں نے ہارورڈ یونیورسٹی کے Radcliffe College میں داخلہ لیا۔ بے نظیر بھٹو نے ہارورڈ یونیورسٹی سے 1973ء میں پولیٹیکل سائنس میں گریجوایشن کر لیا۔ اس کے بعد انھوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لیا جہاں سے انہوں نے فلسفہ، معاشیات اور سیاسیات میں ایم اے کیا۔ وہ اکسفورڈ یونیورسٹی میں اپنے ہم عصر طالب علموں میں نمایاں تھیں بینظیر برطانیہ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد جون 1977ء میں وطن عزیز پاکستان واپس آئیں ان کی وطن واپسی سے صرف دو ہفتے بعد ملکی حالات کشیدہ ہونے پہ 5 جولائی 1977 کو اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹتے ہوئے بھٹو صاحب کو جیل بھیجنے کے ساتھ ساتھ ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔ اور ساتھ ہی بے نظیر بھٹو کو بھی گھر کے اندر نظر بند کر دیا گیا اپریل 1979ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے ایک متنازع کیس میں پھانسی کی سزا سنا دی۔
مارشل لاکے خاتمے اور جمہوریت کی بحالی کے لیے 1981ء میںایم آر ڈی کے نام سے اتحاد بنایا گیا دسمبر 1983ء میں تحریک کو ختم کرنے کا اعلان کیا، 1984ء میں بے نظیر کو جیل سے رہائی ملی، دو سال تک برطانیہ میں جلاوطنی کی زندگی گزاری۔ انہیں پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے پارٹی کا سربراہ بنا دیا۔تاحیات پی پی پی کی سربراہ رہیں جونیجو حکومت نے ملک سے مارشل لا ختم کیا تو 10 اپریل 1986ء میں بے نظیر بھٹو لاہور ایئر پورٹ پہ اتریں ان کا فقید المثال استقبال کیا گیالاکھوں لوگ بھٹو کی بیٹی کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب نظر آئے ۔ 1987ء میں نواب شاہ کے حاکم علی زرداری کے بیٹے آصف علی زرداری سے روشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئیں۔
Bilawal Bhutto
ان کے ہاں تین بچے بلاول، بختاور اور آصفہ ہوئے ان کے بڑے صاحبزادے بلاول بھٹو اب پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ہیں۔ پی پی پی کی قیادت بے نظیر بھٹو کی ایک وصیت کے مطابق سونپی گئیں پی پی پی کے ووٹرز کی اب ساری امیدیں بلاول سے وابستہ ہیں حال ہی میں قمرالزمان قائرہ اور ندیم افضل چن جیسے پرانے راہنمائوں کو وسطی پنجاب میں اہم عہدوں پہ فائز کر کے بلاول نے پارٹی کی گرتی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کی کوشش کی ہے اپنے اردگرد خوشامدی ٹولے کو پیچھے دھکیلتے ہوئے پرانے جیالوں کو آگے لانے کے ساتھ ساتھ کارکنوں کی عزت نفس کی بحالی بھی ضروری ہے وہ مخلص اور بانی کارکن جو پارٹی کو خیر باد کہہ چکے ہیں یا پھر ”مفاہمتی پالیسی ” کے باعث گھروں میں جا بیٹھے ہیںا نہیں منا کر دوبارہ پارٹی میں لانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کو اس بات کا بھی اعزاز ہے کہ وہ پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بنیں ملک عزیز کے اس اہم عہدے پہ انہیں دو بارکام کرنے کا موقع ملا۔ پہلی بار بے نظیر بھٹو نے دو دسمبر1988ء میں 35 سال کی عمر میں ملک اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیرِاعظم کے طور پر حلف اٹھایا لیکن صرف 20 مہینوں کے بعد اس وقت کے صدر پاکستان غلام اسحاق خان نے اپنے آئینی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا 1990ء کے انتخابات میں بے نظیر بھٹو کی پی پی پی الیکشن ہار گئی اور بطور قائد حزب اختلاف کا رول کیا جبکہ1993ء کے الیکشن میں دوسری مرتبہ پھر وزیر اعظم منتخب ہو گئیں اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کے بعد دوسری شخصیت تھیں جو دوسری بار وزیر اعظم کے عہدہ پہ فائز ہوئیں۔
دوسری مرتبہ بھی انہیں اپنی مدت پوری کرنے کا موقع نہ دیا گیا اس بار ان کی حکومت غیروں نے نہیں بلکہ اپنوں نے ختم کی پیپلز پارٹی کے اپنے ہی صدر فاروق احمد خان لغاری نے 1996ء میں بدامنی اور بد عنوانی کرپشن اور ماورائے عدالت قتل کے اقدامات کے باعث بے نظیر کی حکومت کو برطرف کر دیا۔اور یہیں سے فاروق لغاری اور پی پی پی کے راستے الگ الگ ہو گئے اور انہوں نے ملت پارٹی کے نام سے نئی پارٹی بنائی ان کی پارٹی کا انجام بھی پی پی پی کے بطن سے جنم لینے والی دیگر پارٹیوں سے مختلف نہ تھا کچھ ہی عرصہ بعد یہ پارٹی بھی اپنا وجود قائم نہ رکھ سکی بے نظیر بھٹو نے اپنی سیاسی اننگز بڑی ہنگامہ خیز کھیلی ان کا پاکستان کی سیاست میںایک نمایاں رول تھا بینظیر بھٹو اپنے نام کی طرح بے نظیر تھیں۔
28 جولائی 2007ء کو ابوظہبی میں جنرل پرویز مشرف اور بے نظیربھٹو کے درمیان ایک اہم ملاقات ہوئی جس کے بعد پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن تقریباً ساڑھے آٹھ سال کی جلاوطنی ختم کر کے 18 اکتوبر کو وطن واپس آئیں تو ان کا کراچی ائیرپورٹ پر فقید المثال استقبال کیا گیا2008 ء کے عام انتخابات میں الیکشن مہم کے سلسلہ میں27دسمبر2007ء کو لیاقت باغ راولپنڈی میں جلسہ عام کے بعد دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئیں انہیں راولپنڈی جنرل اسپتال لے جایا گیا لیکن وہ زخموں سے جاں بر نہ ہوسکیں اور شام 5 بجکر 10 منٹ پر اپنی جان، جان آفریں کے سپرد کرگئیں۔ اگلے روز انہیں آہوں اور سسکیوں میں ان کے والد اور بھائیوں کے پہلو میں گڑھی خدا بخش، لاڑکانہ میں سپردخاک کر دیا گیا۔