بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں لوٹ مار کی ایسی کہانی کہ سر شرم سے جھک جائے یہ صرف ایک ادارے کی کہانی نہیں بلکہ پورے ملک کے اداروں کا یہ ہی حال ہے عمران خان اور بزدار سرکار کیا کیا ٹھیک کرے کیونکہ جہاں بھی نظر دوڑاؤ بس ایک ہی چیز نظر آتی ہے کہ لوٹ کا مال ہے زرا دل کھول کے لوٹوپچھلی حکومتوں نے کیا کیا نہیں لوٹا یتیم بچوں کے نام لوٹا گیا،بیواؤں کے نام پر لوٹا گیا،طالبعلموں کے نام پر لوٹا گیا،مسافروں کے نام پر لوٹا گیا،نابیناؤں کے نام پر لوٹا گیا،جسمانی معذوروں کے نام پر لوٹا گیا اس قوم کے ذہنی معذوروں نے کس کس کے نام پر کیا کیا نہ لوٹا ابھی حال ہی میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے8لاکھ غیر مستحق افراد کوسروے اور تحقیقات کے بعد نکالا گیاہے اس پروگرام سے ناجائز فائدہ اٹھانے والوں میں ملک بھرسے2543اعلیٰ آفیسران بھی نکالے گئے ہیں۔
بے نظیر انکم سپورٹ کے نام پر منصوبہ سے بعض لوگوں نے ناجائز طورپر فائدہ اٹھایا، گزشتہ 5سال میں 8لاکھ لوگوں نے ناجائز طور پر فائدہ اٹھایا لیکن کسی نے تحقیقات نہیں کی غریبوں، یتیموں اور بیواؤں کے پیسوں پر ہاتھ صاف کرنے والوں میں اکثریت سندھ کے افسران کی ہے جنہوں نے اپنی بیگمات،بچوں اور رشتہ داروں کے نام پر مستحق افراد کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا ان افسران میں سترہ گریڈ کے449 آ فیسر،15گریڈ کے 30آفیسر،18گریڈ342افسران شامل ہیں جی ہاں ایسے ہی افسران ہیں جن کی پشت پناہی سے جرائم پیشہ افراد نے ملک بھر میں لوٹ مار کی انتہا کردی اور آج ہماری آدھی آبادی سطح غربت سے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور ہے انہی سرکاری ملازمین نے سیاستدانوں کو بھی کرپشن کے گر سکھائے اور آج ہمارے سیاستدان اپنے استادوں کو بھی پیچھے چھوڑ گئے۔
آپ کسی بھی سیاستدان کا رہن سہن دیکھ لیں لگتا ہی نہیں کہ وہ ہمارے ووٹوں سے ہماری خدمت کرنے آئے ہیں بلکہ نوٹ کے زور پر ووٹ لے کر وہ ایوانوں میں پہنچ جاتے تھے عمران خان اور انکی پارٹی نے ووٹوں کی خریدوفروخت کو بند کرکے ملک میں تبدیلی کی بنیاد تو رکھ دی مگر ابھی تک چوروں،لٹیروں اور ڈاکوؤں سے پیسے واپس نہیں لیے جاسکے مگر اس میں ہماری حکومت کیا کرے پچھلے 72سالوں سے لوٹ مار کا جو ایک سلسلہ جاری تھا وہ یک دم کیسے رک جاتا کیونکہ وہی افسران ابھی بھی موجود ہیں مگر چند ایک افسران ابھی بھی ایمانداری سے اپنی نوکری کررہے ہیں مگر انہیں سابق حکومتوں نے بھی کھڈے لائن لگائے رکھا اور ابھی بھی وہ تقرری کے منتظر ہیں جنہوں نے کروڑوں نہیں بلکہ اربوں کمائے وہ آج بھی اسی طرح اپنے عہدوں پر براجمان ہیں ہمارے ہسپتالوں میں کام کرنے والے ڈسپنسر سے لیکر اوپر تک،محکمہ مال میں کام کرنے والے پٹواری سے لیکر اوپر تک،محکمہ پولیس میں رضاکار سے لیکر اوپر تک، محکمہ ریلوے میں ڈیلی ویجز پر کام کرنے والوں سے لیکر اوپر تک،امامت کروانے والوں سے وزارت کی چوٹی تک کس کس محکمے کا نام لوں بس یہ سمجھ لیں کہ تین درجن سے زائد محکموں میں سے کوئی ایک بھی محکمہ ایسا نہیں جہاں پر نیتوں میں فطور والے براجمان نہ ہوں۔
ہمارے تعمیراتی محکموں کے افسران لوٹ لوٹ کر بپھرے ہوئے ہیں پولیس والے عام انسان کو انسان ہی نہیں سمجھتے بلکہ جس کی جیبیں بھری ہوئی ہوں انہیں وہی انسان نظر آتا ہے دوسروں کی کھال اتارنا انکا دلچسپ پیشہ بنا ہوا ہے ہمارے دیہاتی تھانوں میں آج بھی جنگل کا قانون ہے وہاں کا تو ایک کانسٹیبل ہی بھاری ہوتا ہے باقی افسران کا تو حال ہی نرالہ ہے وہ سوائے اپنے سے اوپر والوں کو اور کسی کو خاطر میں ہی نہیں لاتے وزیراعظم عمران خان ملک بھر میں تبدیلی کے لیے کوشاں ہے اور پنجاب میں سردار عثمان بزدار مگر کیا کیا جائے کہ لوٹ مار کرنے والوں نے ہر طرف اپنا شکنجہ کسا ہوا ہے پنجاب کے وزیراطلاعات فیاض الحسن چوہان اگر لوٹ مارکرنا چاہے تو کروڑوں روپے ایک دن میں اکٹھے کرسکتا ہے مگر وہ آج بھی درویشانہ زندگی گذار رہا ہے وہ اپنی خدمت کرنے والوں کی بھی خدمت نہیں کرسکتا بلکہ بنک خالی ہونے کی نوید سناتا ہے پی ٹی آئی کی حکومت غریب عوام کی تقدیر کو بدلنے میں مصروف تو ہے مگر اس میں وقت لگے گاکیونکہ لٹیروں نے ہر جگہ اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔
پچھلے سال ڈالر کو پر لگے ہوئے تھے ایک طرف غربت کے مارے لوگ چیخیں ماررہے تھے تو دوسری طرف ملک میں ڈالر نہیں مل رہا تھا میں اس وقت بھی کہتا تھا کہ یہ سب جیالے اور متوالے ہیں جو اپنے اپنے سرداروں کو خوش کرنے کے لیے انکی کٹھ پتلیاں بنے ہوئے ہیں اور یہ بات آج ثابت بھی ہوگئی کہ مارکیٹ سے ڈالر خریدنے والے کون تھے قانون کو تو ویسے بھی ان چوروں اور ڈاکوؤں نے اندھا بنا رکھا تھا جسکے وجہ سے وہ دن رات لوٹ مار میں مصروف رہتے تھے جس طرح بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں غریبوں کے نام پر لوٹ مار کی گئی اسی طرح ہمارے دوسرے تمام محکموں میں بھی لوٹ مار کے ریکارڈ قائم کیے گئے جیسے جیسے وقت گذرے کا بڑے بڑے اور ہوشربا انکشافات سامنے آئیں ابھی تو صرف حکومت کو ایک سال ہی مکمل ہوا ہے دو سرا سال بھی گذر جائے اسکے بعد کیا کیا سامنے آئے وہ حیران کن بھی ہوگا اور پریشان کن بھی کہ کیسے کیسے لوگ ہم پر مسلط ہوتے رہے جو جونکوں کی طرح ہمارا ہی خون چوس چوس کرہمیں لاغر کرتے رہے۔