بینظیر بھٹو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم تھیں۔ پہلی باروہ 1988ء میں پاکستان کی وزیراعظم بنیں لیکن صرف 20 مہینوں کے بعد اس وقت کے صدر پاکستان غلام اسحاق خان نے بے پناہ بدعنوانی کے باعث اپنے خصوصی اختیارت کو استعمال کرتے ہوئے اسمبلی کو ختم کرتے ہوئے نئے الیکشن کروائے۔ بے نظیر نے اپنے بھائی مرتضٰی کے قتل اور اپنی حکومت کے ختم ہونے کے کچھ عرصے بعد ہی جلا وطنی اختیار کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات میں دبئی میں قیام کیا۔ اسی دوران بے نظیر، نواز شریف اور دیگر پارٹیوں کے سربراہان کے ساتھ مل کر لندن میں اے آر ڈی کی بنیاد ڈالی۔ اور ملک میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے خلاف بھر پور مزاحمت کا اعلان کیا۔ ان کی جلاوطنی کے دوران ایک اہم پیش رفت اس وقت ہوئی۔ جب 14 مئی 2006ء میں لندن میں نواز شریف اور بے نظیر کے درمیان میثاقِ جمہوریت پر دستخط کر کے جمہوریت کو بحال کرنے اور ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہونے کا فیصلہ کیا۔
دوسری پیش قدمی اس وقت ہوئی جب 28 جولائی 2007ء کو ابوظہبی میں جنرل مشرف اور بے نظیر کے درمیان ایک اہم ملاقات ہوئی جس کے بعد پیپلز پارٹی کی چئیرپرسن تقریباً ساڑھے آٹھ سال کی جلاوطنی ختم کر کے 18 اکتوبر کو وطن واپس آئیں تو ان کا کراچی ائیرپورٹ پر فقید المثال استقبال کیا گیا۔ بے نظیر کا کارواں شاہراہِ فیصل پر مزارِ قائد کی جانب بڑھ رہا تھا کہ اچانک زور دار دھماکے ہوئے جس کے نتیجے میں کئی افراد کو موت کی نیند سلا دیا گیا، جبکہ سینکڑوں زخمی ہو گئے۔ قیامت صغریٰ کے اس منظر کے دوران بے نظیر کو بحفاظت بلاول ہاؤس پہنچا دیا گیا۔ پیپلز پارٹی کی چئرپرسن جب اپنے بچوں(بلاول، بختاور اور آصفہ) سے ملنے دوبارہ دوبئی گئیں تو ملک کے اندر جنرل مشرف نے 3 نومبر کو ایمرجنسی نافذ کر دی۔ یہ خبر سنتے ہی بے نظیر دبئی سے واپس وطن لوٹ آئیں۔ ایمرجنسی کے خاتمے، ٹی وی چینلز سے پابندی ہٹانے اور سپریم کورٹ کے ججز کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہوئے حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا۔ اس وقت تک ملک میں نگران حکومت بن چکی تھی اور مختلف پارٹیاں انتخابات میں حصہ لینے کے معاملے میں بٹی ہوئی نظر آرہی تھیں۔
اس صورت میں پیپلز پارٹی نے میدان خالی نہ چھوڑنے کی حکمت عملی کے تحت تمام حلقوں میں امیدوار کھڑے کیے۔ اور کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے۔27 دسمبر 2007ء کو جب بے نظیر لیاقت باغ میں عوامی جلسے سے خطاب کرنے کے بعد اپنی گاڑی میں بیٹھ کر اسلام آباد آرہی تھیں کہ لیاقت باغ کے مرکزی دروازے پر پیپلز یوتھ آرگنائزیشن کے کارکن بینظیر بھٹو کے حق میں نعرے بازی کر رہے تھے، اس دوران جب وہ پارٹی کارکنوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے گاڑی کی چھت سے باہر نکل رہی تھیں کہ نامعلوم شخص نے ان پر فائرنگ کر دی۔ اس کے بعد بینظیر کی گاڑی سے کچھ فاصلے پر ایک زوردار دھماکہ ہوا جس میں ایک خودکش حملہ آور جس نے دھماکہ خیز مواد سے بھری ہوئی بیلٹ پہن رکھی تھی، خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ اس دھماکے میں بینظیر بھٹو جس گاڑی میں سوار تھیں، اس کو بھی شدید نقصان پہنچا لیکن گاڑی کا ڈرائیور اسی حالت میں گاڑی کو بھگا کر راولپنڈی جنرل ہسپتال لے گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہو گئیں۔ بینظیر کی وصیت کے مطابق پیپلز پارٹی کی قیادت ان کے 19 سالہ بیٹے بلاول زرداری بھٹو کو وراثت میں سپرد کر دی گئی۔سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو قتل ہوئے 6 سال بیت گئے۔تحقیقات کے نام پرقومی خزانے سے اربوں روپے کی خطیر رقم خرچ کرنے کے باوجود بھی کیس اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچ سکاـبے نظیر کے قاتل کون ہیں اور اس کیس کے اصل محرکات کیا ہیں ان سوالوں کا جواب چھ سال میں بھی نہیں مل سکا۔اقوام متحدہ کی تحقیقات رائیگاں، قتل کے محرکات بھی واضح نہ ہوئے۔
Pakistan Peoples Party
پیپلز پارٹی نے بے نظیر بھٹو کی”عظیم شہادت” کے عوض پانچ سال حکومت کی،ملک کو مہنگائی،بدامنی،دہشت گردی کی لپیٹ میں ڈالا،مگر ان پانچ سالہ دور اقتدار میں ”ایک زاردی سب پہ بھاری” نے محترمہ کے قاتلوں کوبے نقاب نہیں کیا، آصف زرداری نے نوڈیرو میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آج کے دن ہمارے دل افسردہ ہیں لیکن اس بات پر فخر ہے کہ بینظیر نے جان کی قربانی دیکرتاریخ میں نام لکھوالیا۔ آصف علی زرداری نے بینظیر کے قتل کی پہلی برسی پر دعوی کیا کہ انھیں معلوم ہے کہ قاتل کون ہیں۔ البتہ صدر مملکت بن جانے کے بعد قتل کی دوسری برسی پر اپنی تقریر میں اس بارے کچھ نہ بتا سکے۔ اور ایوان صدرات سے رخصت ہو جانے کے بعد بھی خاموش ہیں ہاں البتہ انہوں نے ایک بار سپریم کورٹ سے ضرور استفسار کیا تھا کہ محترمہ کے قاتل کہاں ہیں،حالانکہ قاتل پکڑناسپریم کورٹ کا نہیں بلکہ حکومت کا کام ہوتا ہے،عدالت تو صرف سزا و جزا کا فیصلہ کرتی ہے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران اب اقتدار میں موجود مسلم لیگ(ن) نے بینظیر قتل کے بارے ایک سوالنامہ جاری کیا تھا جس میں حکومت سے پوچھا گیاتھا کہ صدر زرداری اور وزیر داخلہ رحمان ملک قاتلوں کے نام جانتے ہوئے انھیں منظرعام پرنہیں لارہے، بتایا جائے کہ وہ کس مناسب وقت کا انتظار کررہے ہیں؟ سوال نمبر دو میں کہا گیا کہ قتل کے فواً بعد جوتحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی، وہ کن افراد پرمشتمل تھی اوران کی تحقیقات بے نتیجہ کیونکر رہیں؟ تیسرے سوال میں پوچھا گیا کہ پیپلزپارٹی کی جانب سے کون لوگ محترمہ کی سیکیورٹی کے ذمہ داران تھے؟ پارٹی کے ان رہنماؤں کا پوچھا گیا ہے جو بے نظیربھٹوکے ساتھ جلسہ گاہ اورگاڑی میں موجود تھے، ان سے شفاف تحقیقات کی گئیں یا نہیں ؟
اگرکی گئیں توانہوں نے کن امورکی نشاندہی کی؟ اس کے علاوہ سوالنامے میں کہا گیا کہ بینظیر بھٹو کے قتل کامعمہ تو حل نہیں کیا جاسکا لیکن اس دوران ذوالفقار علی بھٹو کے قتل کی تحقیقات کا آغاز کرنے کی بڑی وجہ کیا ہے؟ سوالنامہ پوچھتا ہے کہ بینظیر کے ساتھ جلسہ گاہ پر موجود بعض رہنماء حملے کے فوری بعد کیوں غائب ہوئے اور آخر کیا وجہ تھی کہ پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوتے ہی ملکی سیکورٹی اداروں کی جانب سے قتل کی تحقیقات کو روک کر سکاٹ لینڈیارڈ سے تفتیش کروانے کے لیے قومی خزانے سے اربوں روپے بھی خرچ کیے گئے؟ سوالنامے میں مسلم لیگ نون نے ایک بار پھراعلان کیا کہ وہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی شفاف تحقیقات بھی کرائے گی اور اس کے پس پردہ سازش اور کرداروں کوبھی بے نقاب کرکے انصاف کے کہڑے میں کھڑا کیا جائے گا۔ مسلم لیگ ن کی جانب سے سوال نامے میں کہا گیا ہے۔
ستائیس دسمبردو ہزار سات کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کی وجہ سے میثاق جمہوریت پر عملدرآمد کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا اورآج بھی اس شہادت کے اثرات ملک کے موجودہ سیاسی منظرنامے پر محسوس کئے جاسکتے ہیں جس پر ہر پاکستانی مضطرب اور سیاسی بے یقینی عروج پرہے۔ مسلم لیگ(ن) نے یہ سوالنامہ گزشتہ سال جاری کیا تھا اب میاں نواز شریف وزیراعظم ہیں، قوم منتظر ہے انہون نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ ہم اقتدار میں آ کر بے نظیر کے قاتلوں کے بے نقاب کریں گے،اب دیکھتے ہیں کہ نواز شریف بھی زردار ی کی طرح خاموشی سے رخصت ہو جائیں گے یا پھر پیپلز پارٹی کے کارکنان کے زخموں پر مرہم رکھیں گے۔