امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی مصنف اور صحافی کینتھ ٹمرمین نے ‘سی آئی اے’ سے مطالبہ کیا کہ وہ ان دستاویزات کو سامنے لائے جن میں لیبیا کے شہر بنغازی میں امریکی سفارت خانے پر حملے میں ایران کے براہ راست ملوث ہونے کے ثبوت فراہم کیے گئے ہیں۔ سنہ 2012ء میں ہونے والے اس لیبیا میں امریکی سفیر سمیت چار امریکی ہلاک ہو گئے تھے۔
ٹمرمین نے “دی نیویارک پوسٹ” میں لکھے ایک مضمون میں کہا ہے کہ ایک ملٹری ٹھیکیدار کے مطابق فروری 2011 میں لیبیا کے لیڈر معمر قذافی کے خلاف بغاوت کے ابتدائی دنوں میں ایرانی قدس فورس کے ایجنٹ سڑکوں پر کھلے عام گھوم رہے تھے۔
انھوں نے مزید لکھا ہے کہ سنہ 2012 کے موسم گرما تک بنغازی اور طرابلس میں امریکی انٹلیجنس اور سیکیورٹی افسران نے سفیر کرسٹوفر اسٹیونس سمیت ان کی چین آف کمانڈ کو متنبہ کیا تھا کہ ایرانی بنغازی میں امریکی تنصیبات پر دہشت گرد حملے کی تیاری کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سفارت خانے کے چیف سیکیورٹی ، کرنل گرین بیریٹ اینڈی ووڈ نے جون 2012 میں اپنے کمانڈر کو ایک ٹیلیگرام بھیجا تھا کہ ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا “انصار الشریعہ” کو ایران سے مالی اعانت ملی ہے اور اب اس کے ارکان اپنی بیویوں اور بچوں کو بن غازی بھیج رہے ہیں۔
ٹمرمین نے کہا کہ پوری اوباما انتظامیہ کے دوران بنغازی میں قدس فورس کی موجودگی سے واقف اہلکار جن میں سیکیورٹی کے ٹھیکیداروں سمیت کئی دوسرے عہدیدار شامل تھے کو دھمکی دی گئی کہ اگر انہوں نے بنغازی میں ہونے والے دہشت گردانہ واقعے کے بارے میں معلومات سامنے لائیں تو ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ ان میں ایک نام اس وقت ڈیفنس انٹیلی جنس ڈائریکٹر جنرل مائیکل فلن کا بھی شامل تھے۔
مصنف نے ایک ایرانی ذرائع کے ذریعہ جمع کروائی گئی دستاویزات کا انکشاف کیا ہے جس میں ایرانی حکومت کے حملوں میں ملوث ہونے پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ان دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ ایران نے بنغازی میں امریکی سفارت خانے پرحملوں کے لیے قدس فورس کے ذریعے انصار الشریعہ کو19 لاکھ یورو کی رقم منتقل کی تھی۔
ٹمرمین کے مطابق ایران نے جہادی گروپ “انصار الشریعہ” ملیشیا میں بھرتیوں، عسکری تربیت اور انہیں ہتھیاروں سے لیس کرنے کے لیے جس شخص کو ذمہ داری سونپی تھی وہ ایک لبنانی تھا۔ اس کی شناخت خلیل حرب ہے جسے مغربی خفیہ ایجنسیوں میں حزب اللہ کا رکن بتایا جاتا ہے۔
اس مضمون کے مطابق بنغازی حملوں کے فورا بعد ہی امریکی محکمہ خارجہ نے اس کے منصوبہ سازوں کے بارے میں معلومات دینے پر 5 ملین ڈالر کا انعام مقرر کیا تھا۔