برلن (جیوڈیسک) جرمن پولیس کے ہاتھوں برلن ٹرک حملے کے الزام میں پکڑے جانے والے پاکستانی نوجوان کو موت کے خوف نے گھیر لیا ہے۔ اسے ڈر ہے کہ اس الزام کے بعد اس کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔
غیر ملکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نوید بلوچ نامی پاکستانی نوجوان نے بتایا کہ مجھے حملے کا کوئی علم نہیں تھا، میں ایک دوست کے گھر سے واپس آ رہا تھا کہ اچانک پولیس نے اسے مشتبہ حملہ آور سمجھ کر حراست میں لے لیا اور آنکھوں پر پٹی باندھ کر تفتیش کیلئے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا۔
نوید بلوچ نے بتایا کہ اسے تفتیشی مقام پر لے جاتے ہی ننگا کر دیا گیا، تصویریں اتاری گئیں اور خون کے نمونے بھی لیے گئے۔ میں نے جب مزاحمت دکھائی تو پولیس والوں نے مجھے تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔
پاکستانی نوجوان کا کہنا تھا کہ جرمن پولیس نے تفتیش کیلئے ایک مترجم کو بلوایا کیونکہ میں ٹھیک طریقے سے انگریزی نہیں بول سکتا۔ میں نے جب ان کو بتایا کہ میں اس حملے کے بارے میں بالکل نہیں جانتا تو پولیس اہلکاروں نے کہا کہ کسی شخص نے ایک تیز رفتار ٹرک کے ذریعے ہجوم کو کچل ڈالا ہے۔ اس واقعے میں کئی افراد ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں۔ تم ٹرک کے پچھلے ٹائر کے پاس موجود تھے، کیا تم وہاں موجود نہیں تھے؟
نوجوان کا کہنا تھا کہ میں نے اپنے ہواس بحال کرتے ہوئے انھیں بتایا کہ میں ٹرک چلانا تو کیا کسی بھی گاڑی کو سٹارٹ تک کرنا نہیں جانتا۔ میں نے انھیں بتایا کہ میں تو اپنے ملک سے بھاگ کر پناہ لینے جرمنی آیا ہوں۔
آپ لوگوں نے مجھے پناہ دی، مجھے کھانا اور ادویات فراہم کیں، میں کیسے یہ سب کچھ کر سکتا ہوں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ میں ہی اس تمام واقعے کا ذمہ دار ہوں تو مجھے عبرتناک سزا دی جائے۔ نوید بلوچ نے بتایا کہ جرمن پولیس نے دو دن تک اسے حراست میں رکھا تاہم بعد ازاں اسے رہا کر دیا گیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے نے جب نوید بلوچ سے پوچھا کہ اس نے مہاجرت کیلئے جرمنی کا انتخاب ہی کیوں کیا؟ اس کا جواب دیتے ہوئے اس کا کہنا تھا کہ اس کی کوئی خاص وجہ نہیں ہے، یہ میری چوائس نہیں تھی۔ میرے خاندان والوں نے ایک ایجنٹ کو پیسے دیے جس نے مجھے یہاں پہنچا دیا۔
نوید بلوچ کا کہنا ہے کہ وہ شکر ادا کرتا ہے کہ برلن ٹرک حملے کا اصل مجرم اپنے انجام کو پہنچ گیا ہے۔ تاہم اس کا کہنا ہے کہ اسے اپنی زندگی کے بارے میں خطرات لاحق ہیں، اسی وجہ سے اس نے میڈیا کے ذریعے اپنی اصل کہانی دنیا کے سامنے لانے کا فیصلہ کیا۔