اسلام آباد (جیوڈیسک) جرمن وزیرِ خارجہ ہائیکو ماس کے دورہ پاکستان کو کئی حلقوں نے بہت دلچسپی سے دیکھا۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے اس دورے کا ایک اہم مقصد پاکستان پر کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کے لیے عالمی دباؤ بڑھانا ہے۔
جرمن وزیرِ خارجہ ہائیکو ماس کے دورہ پاکستان کو ملک میں کئی حلقوں نے بہت دلچسپی سے دیکھا۔ اسلام آباد کا دعویٰ یہ ہے کہ اس دورے کے دوران تعلیم، تجارت اور دیگر شعبوں میں تعاون پر بات ہوئی لیکن سیاسی مبصرین کا خیال ہے اس دورے کا ایک اہم مقصد پاکستان پر عالمی دباؤ بڑھانا ہے تاکہ وہ کالعدم تنظیموں اور غیر ریاستی عناصر کے خلاف حقیقی کارروائی کر سکے۔
واضح رہے کہ جرمن وزیر خارجہ منگل 12 مارچ کو ایک روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچے تھے جہاں انہوں نے اپنے ہم منصب شاہ محمود قریشی کے علاوہ وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی۔ کئی ناقدین کے خیال میں پلوامہ حملے کے بعد بھارت اور پاکستان جوہری جنگ کے قریب ہوگئے تھے، جس پر جرمنی، یورپی یونین اور پوری دنیا کو تشویش ہے۔
برطانیہ میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر واجد شمس الحسن کا کہنا ہے کہ دنیا کے خیال میں پاکستان کی جہادی و کالعدم تنظیمیں عالمی امن کے لیے خطرہ ہیں اور یہ کہ اسلام آباد کو ان کے خلاف سخت اقدامات کرنے چاہییں۔ جرمن وزیرخارجہ کے دورے پر تبصرہ کرتے ہوئے واجد شمس الحسن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’جرمنی یورپی یونین کا ایک اہم ملک ہے اور وہ یقینا ًپاک بھارت کشیدگی سے پریشان ہے، جس کی وجہ سے جنوبی ایشیاء جوہری جنگ کے دہانے پر ہے۔
دنیا کے کئی حلقوں میں یہ خیال ہے کہ مودی انتخابات کی وجہ سے کوئی ایڈونچر کر سکتے ہیں۔ انہوں نے پہلے بھی ایک ایڈونچر کیا تھا جو ناکام ہوگیا ہے لیکن وہ دوسرا بھی کر سکتے ہیں، جس کا پاکستان سخت جواب دے سکتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ دنیا کی یہ رائے بھی ہے کہ پاکستان کی طرف سے جہادی تنظیموں کی حمایت جنوبی ایشیاء کو جنگ کی دہانے پر لے کر جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اس حمایت کی وجہ سے افغانستان بھی غیر مستحکم ہے۔ تو ابھی جرمن وزیرِ خارجہ آئے ہیں بعد میں اور بھی یورپی اور عالمی تنظیموں کے نمائندے پاکستان آئیں گے اور سب کا یہ ہی مطالبہ ہے کہ پاکستان ان جہادی عناصر کے خلاف بھر پورکارروائی کرے۔ پاکستان پر اس حوالے سے بہت عالمی دباؤ ہے اور اگر اسلام آباد نے ایسا نہیں کیا، تو اسے بلیک لسٹ بھی کیا جا سکتا ہے۔‘‘
واضح رہے کہ پاکستان پر یہ الزام رہا ہے کہ وہ افغانستان میں طالبان اور حقانی نیٹ ورک کی حمایت کرتا رہا ہے جب کہ بھارت کے زیرِ اتنظام کشمیر میں بھی اس کی حمایت جہادی تنظیموں کے پیچھے رہی ہے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ اسلام آباد نے ہمیشہ ان تنظیموں کے خلاف مصنوعی اقدامات کیے ہیں۔ پشاور یونیورسٹی کے ایریا اسٹڈی سینٹر کے سابق ڈائریکٹر ڈاکڑ پروفیسر سرفراز خان کا کہنا ہے کہ جرمنی اور یورپی یونین پاکستان کو یہ باور کرا رہے ہیں کہ اگر اب ان تنظیموں کے خلاف سخت اقدامات نہیں ہوئے تو اسلام آباد کو سخت نتائج بھگتنا پڑ سکتے ہیں: ’’یورپی یونین پاکستان کی ایکسپورٹ کے لیے ایک بڑی مارکیٹ ہے اور جرمنی کا ای یو میں بہت اہم کردار ہے۔ پلوامہ حملے کے بعد جرمنی سمیت پوری یورپی یونین اور دنیا نئی دہلی کے ساتھ کھڑی تھی۔ کسی نے بھی بالا کوٹ حملے کی مذمت نہیں کی۔ میرا خیال ہے کہ جرمن وزیر یہ پیغام دے رہے ہیں کہ اگر پاکستان نے سخت اقدامات نہیں کیے تو جی ایس پی پلس کا درجہ پاکستان کھو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اسلام آباد کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس اپنے آنے والے اجلاس میں بلیک لسٹ بھی کر سکتی ہے۔‘‘
واضح رہے کہ جرمنی کے پاکستان اور بھارت دونوں ممالک کے ساتھ بہتر تجارتی روابط ہیں۔ جرمنی یورپ میں بھارت کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم دوہزار سولہ سترہ میں 18.73 بلین ڈالر رہا جب کہ جرمنی پاکستان کا چوتھا بڑا ٹریڈنگ پارٹنر ہے اور اس کی نظر پاکستان کی بڑھتی ہوئی مارکیٹ پر ہے، جس کی آبادی بقول جرمن سفیر برائے پاکستان مارٹن کوبلر دوہزار پچاس تک چارسو ملین ہو جائے گی۔
ناقدین کے خیال میں سرمایہ کاری امن اور استحکام سے منسوب ہے، جس میں سب سے بڑی رکاوٹ غیر ریاستی عناصر ہیں۔ پاکستان کی سابق سفیر برائے ایران فوزیہ نسرین کا کہنا ہے کہ جرمنی، بھارت اور پاکستان کے درمیان بات چیت کے لیے اہم کردار ادا کر سکتا ہے: ’’جرمنی کی دونوں ممالک میں سرمایہ کاری ہے۔ لہٰذا وہ ان کے درمیان بات چیت کرا سکتا ہے۔ جہاں تک کالعدم تنظیموں کا تعلق ہے، اسلام آباد جرمنی سمیت تمام ممالک کو بریف کر رہا ہے کہ وہ کیا اقدامات اٹھا چکا ہے اور مزید کونسے اقدامات اٹھانے جارہا ہے۔ میرے خیال میں اس مرتبہ پاکستان بہت سنجیدہ ہے اور وزیرِ اعظم عمران خان خود ان اقدامات کی نگرانی کر رہے ہیں۔‘‘
اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے عالمی ادارہ برائے امن و استحکام سے وابستہ ڈاکڑ بکر نجم الدین کا خیال ہے کہ سرمایہ کاری کے علاوہ جرمنی کی تشویش مہاجرین اور ہجرتوں سے متعلق بھی ہے: ’’اگر پاکستان اور بھارت میں جنگ ہوئی تو یہ نہ صرف تباہی لے کر آئے گی بلکہ بڑے پیمانے پر ہجرتیں بھی ہو ں گی اور یورپ ان ہجرتوں کا محور ہو گا۔ جرمنی یورپ میں مہاجرین کی سب سے بڑی آبادی کو پال رہا ہے اور جرمنی سمیت پورے یورپ میں مہاجرین کا مسئلہ ایک اہم سیاسی مسئلہ ہے۔ تو جرمنی چاہتا ہے کہ پاک و بھارت کشیدگی ختم ہو اور وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اسلام آباد افغانستان کے امن و استحکام کے لیے کام کرے تاکہ افغان مہاجرین کا مسئلہ بھی حل ہو اور یورپ کو بھی مہاجرین کے ممکنہ دباؤ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔