برلن (جیوڈیسک) جرمن دارالحکومت برلن میں ایک ہزار کے قریب مظاہرین ایک متنازعہ اسرائیل مخالف ریلی کے لیے جمع ہوئے۔ ان مظاہرین کی ریلی کے خلاف ایک دوسرے مظاہرے کا اہتمام بھی کیا گیا تھا، جو جرمنی میں بڑھتی ہوئی سامیت دشمنی کے خلاف تھا۔
ہفتہ یکم جون کے روز برلن میں اس اسرائیل مخالف ریلی میں تقریباﹰ ایک ہزار شرکاء نے حصہ لیا۔ اس ریلی کا اہتمام ایک ایسے وقت پر کیا گیا تھا جب جرمنی میں یہ خدشات زور پکڑتے جا رہے ہیں کہ یورپی یونین کے رکن اس ملک میں سامیت دشمن جذبات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
اس احتجاجی ریلی کا اہتمام یوم القدس یا یروشلم ڈے کے موقع پر کیا گیا تھا اور باقاعدہ طور پر اس اجتماع کو ‘فلسطین میں ایک منصفانہ امن کے لیے‘ کا عنوان دیا گیا تھا۔ یہ ریلی ان تمام مطالبات کے باوجود نکالی گئی، جن میں کہا گہا تھا کہ جرمن حکام کو اس مظاہرے پر پابندی لگا دینا چاہیے تھی۔ ایسے مطالبات کرنے والی اہم ترین شخصیات میں جرمنی میں یہودیوں کی مرکزی کونسل کے صدر یوزیف شُسٹر بھی شامل تھے۔
اس ریلی سے قبل کئی سرکردہ جرمن سیاستدانوں نے، جن میں وفاقی صدر فرانک والٹر شٹائن مائر کے علاوہ خاندانی امور کی وفاقی جرمن وزیر فرانسِسکا گِفّی بھی شامل تھیں، جرمن عوام سے یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ وہ ملک میں بڑھتی ہوئی سامیت دشمنی کے خلاف اپنا کردار ادا کریں۔
اس حوالے سے خاندانی امور کی وفاقی وزیر گِفّی نے برلن سے شائع ہونے والے اخبار ‘ٹاگَیس اشپیگل‘ کو بتایا، ”ہم سب کو سامیت دشمن امتیازی رویوں کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے ان کی مخالفت کرنا ہو گی۔ ہمیں سامیت دشمنی کے خلاف بولنا ہو گا، اور یہودی عقیدے کے حامل شہریوں کو بتانا ہو گا: ہم آپ کے ساتھ ہیں، ہم آپ کی حمایت کرتے ہیں۔‘‘
برلن میں آج یوم القدس کے موقع پر اسرائیل مخالف ریلی کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے مظاہرے میں بھی سینکڑوں شہریوں نے شرکت کی، جو جرمنی میں یہودی برادری کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے تھے۔ اس ریلی کا مقصد یہودیوں کے لیے سماجی تائید و حمایت کا اظہار تھا، جنہیں ایک مذہبی اقلیت کے طور پر ان دنوں سامیت دشمن واقعات کی بڑھتی ہوئی تعداد کا سامنا ہے۔ ڈی ڈبلیو کی رپورٹر چیز ونٹر کے مطابق برلن پولیس نے بتایا کہ اس اسرائیل نواز ریلی کے شرکاء کی تعداد 600 کے قریب تھی، جنہوں نے شہر کی مختلف سڑکوں پر مارچ کیا۔
تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں یہودیوں پر حملوں کے واقعات میں، جن کی تعداد 2017ء میں 1504 رہی تھی، 2018ء میں مزید اضافہ ہوا اور گزشتہ برس ان کی سالانہ تعداد 1646 رہی تھی۔ یہ تعداد تقریباﹰ دس فیصد اضافے کے برابر بنتی ہے۔ دوسری طرف اس طرح کے وہ واقعات، جن کی پولیس کو باقاعدہ اطلاع بھی دی گئی تھی، ان کی تعداد، سرکاری ڈیٹا کے مطابق، 2017ء میں 37 سے بڑھ کر 2018ء میں 62 ہو گئی تھی۔