میں سمجھتی ہوں یہاں بڑے بڑے درخشاں ستاروں کی موجودگی میں میرا کچھ کہنا ذرہ بے نشاں کے مترادف ہوگا مگر پھر بھی لب پر آئی بات دوسروں تک پہنچادینے میں مضائقہ نہیں سمجھتی جو احباب کچھ لکھنا چاہتے ہیں مگر لکھنے میں جھجک محسوس کرتے ہیں، اس سوچ میں بیٹھے ہیں کہ لکھیں تو کیا لکھیں اور کیسے لکھیں؟ جو لوگ اخبارات میں لکھ رہے ہیں وہ تو نامور اور تجربہ کار لکھاری ہیں ہم نے کچھ لکھ کر بھیجا تو کہیں مذاق نہ اڑایا جائے وغیرہ وغیرہ،ان لوگوں کے لیے میری سوچی سمجھی رائے کے مطابق کچھ کہنا چاہتی ہوں ہم اکثر بازار جاکر کسی چیز کے لیے دکاندار سے اچھی خاصی بحث کرلیتے ہیں کھڑے کھڑے کسی بھی چیز کی کوالٹی پر اپنی رائے دے لیتے ہیں۔
خبروں پر تبصرہ کر لیتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ہمارے پاس لکھنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں؟ وجہ صرف اور صرف وہی ہے۔ جو میں نے اوپر بیان کی ہے کہ لکھنے میں جھجک محسوس ہوتی ہے ہم سکول پڑھتے تھے تو امتحانات کے دوران کچھ کہانیاں اور مضامین لکھاکرتے تھے جن میں پیاسا کوا، گائے، میری کتاب، کرسی” وغیرہ چند ایسے مضامین ہوتے جو کتاب کے مطابق ہو بہو لکھنے ہوتے اگر کرسی کی چار ٹانگوں کی بجائے تین ٹانگیں لکھ دیتے تو نمبر کٹ جاتے مگر”ایک میچ کا آنکھوں دیکھا حال” ایسا مضمون تھاجو ہم اپنے الفاط میں لکھتے، جو ذہن میں آتا لکھتے ہی چلے جاتے کوئی میچ کے دوران تالیاں بجانے کا ذکر کرتا اور کوئی سیٹیاں بجانے کا، کسی نے میچ دیکھنے کے دوران سموسے کھائے اور کوئی ٹھنڈی بوتلیں پی،ہر کسی نے الگ ہی واقعہ لکھا ہوتا مگر نمبر سب کے پورے آتے وہیں سے ہم پر ادراک ہوا کہ اگر ہم کچھ لکھنا چاہیں اور سمجھ نہ آئے تو کیا لکھیں تو شروعات ایسے واقعات سے ہوسکتی ہے، کسی میچ کا، کسی سفر کا،کسی تقریب کا احوال لکھیں، شہر میں رہائش پذیر ہیں تو مارکیٹ جاکر خریداری کا احوال، پکنک کا احوال، سیر و تفریح کا احوال گا?ں میں رہتے ہیں تو کسی چوپال یا پنچایت میں ہونے والے بحث و مکالمے کا حال، فصل کی بوائی کا،کٹائی کا احوال جو آپ دوسروں کو بتانا چاہیں تو بولنے کی بجائے لکھ کر بتا سکتے ہیں اس لیے اپنے ارد گرد کا مشاہدہ کریں،ایسا کچھ بھی ہو تو ارادہ کریں،قلم اٹھائیں اور لکھنا شروع کردیں بلکل نہ سوچیں کہ یہ سب لکھنے کا مقصد کیا ہے؟
یہ کہیں شائع ہوگا یا نہیں کسی کو پڑھنے میں دلچسپی ہوگی یا نہیں وغیرہ ضروری نہیں کہ جو بھی لکھا جائے وہ تحریر کسی جگہ شائع ہو،ہمارا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ہمیں لکھنا آجائے،کچھ لکھیں تو وہ بامقصد ہو اور ہمارا لکھا کسی کے لیے سود مند ثابت ہوجائے بس لکھیں اور لکھتے اور لکھتے ہی چلے جائیں،لکھنے کے دوران پیچھے مڑ کر نہ دیکھیں، لکھ چکیں تو پھر خوب غور سے تنقیدی جائزہ لیں کہ کتنے الفاظ ہیں جو دوسروں کو دکھائے جاسکتے ہیں، کتنے الفاظ ہیں جو حذف کر دیئے جائیں تو تحریر کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور کتنے الفاظ ہیں جو حذف کرنے ضروری ہیں، اس کے بعد دوبارہ بقیہ تحریر پر نظر دوڑائیں اور جب آپ کا اطمینان ہو جائے تو پھر کسی کو پڑھنے اور نظر ثانی کے لیے دیںاس سے کم از کم اتنا ضرور ہوگا کہ آپ ارد گرد کے ماحول پر گہری نظر ڈالنے لگیں گے، کچھ نیا تلاش کرنے کی جستجو میں لگ جائیں گے،آپ کو مطالعے کی عادت پڑ جائے گی،لکھنے کا شوق پیدا ہو جائے گا،آپ کی جھجک ختم ہوجائے گی اور ایک دن آئے گاجب آپ کے پاس الفاظ کا ذخیرہ ہوگا۔
تحریر میں خود بخود روانی آجائے گی،اگر ہم صرف اس سوچ کے ساتھ لکھیں کہ کسی اخبار میں ہماری تصویر کے ساتھ چھپ جائے اور لوگ ہمیں جاننے لگ جائیں تو کبھی ہمارے لکھنے کا مقصد پورا نہیں ہوگا ابھی ہمیں ضرورت ہی نہیں کچھ چھپوانے کی، ہم تو سیکھنے کے لیے آئے ہیں،جس دن ہم نے کچھ با مقصد لکھ لیا خود ہی کہیں نہ کہیں چھپا ہوا نظر آجائے گامیں سمجھتی ہوں ابھی خود بھی اس میدان میں اترنے کے قابل نہیں ہوئی،ابھی خود سیکھنے کے مراحل میں ہوں،جو باتیں آپ لوگوں سے شیئر کیں خود بھی انہیں پر عمل کرتی ہوں، بہت عرصہ غیر متحرک اور خاموش رہی اور لکھ کر ردی میں ڈالتی رہی مگر اب تھوڑی بہت آپ بیتیاں، مکالمے اور ایسی اصلاحی تحریریں جو کسی کی زندگی میں بہتری لانے کا سبب بن سکیں کبھی کبھار لکھ لیتی ہوں میرا مزاج صحافتی نہیں مگر قصور کی معصوم بچی زینب کے دل دہلا دینے والے واقعہ نے مجھ جیسے کم گو انسان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا اور میں نے پہلی بار اخبار میں لکھنے کے لیے قلم اٹھایا اور اس سانحے نے جتنا غبار میرے اندر بھر دیا تھا وہ سب کاغذ پر نکال دیا جو شائع بھی ہوا۔
اس وقت میرا مقصد صرف اور صرف یہ تھا کہ کوئی انسان ان محرکات پر غور کرلے جو ایسے واقعات کا سبب بنتے ہیں تو میرا لکھنے کا مقصد پورا ہوجائے گایاد رکھیں اگر کوئی ہمارے لکھے پر خوش آئند تبصرہ کرے تو سیروں خون بڑھتا ہے لیکن اگر کوئی تنقید کرے تو ہم بہت جلد ہمت ہار جاتے ہیں،دلبرداشتہ نہ ہوں،تحمل سے کام لیں،دوسروں کی تنقید کواپنی اصلاح کاذریعہ سمجھیں اورخود میں بہتری پیدا کریں میں سمجھتی ہوں زندگی کے کسی بھی شعبے،کسی بھی کام میں تنقید کے بغیر ہمارے اندر کبھی نکھار پیدا نہیں ہوسکتا۔ مجھ جیسے نئے لکھنے والوں کو چاہیے کہ چھوٹی موٹی تحاریر لکھنے سے آغاز کریں، چاہے ایک پیرا ہی ہو مگر اس میں دوسروں کے لیے کوئی سبق ہویا پیغام ہو۔ مثال کے طور پر ایک چھوٹا ساخاکہ پیش خدمت ہے۔بیٹا: باباجانی آپ گھر کے پا س والی مسجد چھوڑ کر اتنی دور کیوں نماز پڑھنے جاتے ہیں؟باپ: بیٹا ہماری قریبی مسجد دوسرے مسلک کی ہے اس لیے میں اتنی دور نماز پڑھنے جاتا ہوںبیٹا: باباجانی! بیت اللہ میں تو سبھی لوگ ایک ساتھ نماز پڑھتے ہیں پھر ہمارے ہاں مسجدیں الگ کیوں ہیں؟باپ: بیٹا سوجائوصبح سکول بھی جانا ہے۔
یہ چھوٹا ساخاکہ اپنے اندر بہت کچھ سموئے ہوئے ہے، اگر چند الفاظ ہی آپ کے پیغام کو دوسروں تک پہنچانے کا سبب بن جائیں تو میں سمجھتی ہوں بہت لمبی چوڑی تحریر کی ضرورت باقی نہیں رہتی میرا یہ سب باتیں کرنے کا مقصد یہی تھا کہ اگر آپ بھی میری طرح اس سوچ میں مبتلا ہیں کہ لکھیں مگر کیسے تو یہاں بہت سے لوگوں کا مقصد یہی ہے کہ ہمارے اندر لکھنے کی تحریک پیدا کی،شوق پیدا کیا جائے۔بہت سی نامور شخصیات ہیں جو ہم جیسے لوگوں کو احساس محرومی سے نکالنے اور رہنمائی کے لیے ہمہ وقت موجود ہیں۔ اس لیے اس موقع کا فائدہ اٹھائیں، عزم کریں اور قلم اٹھالیں۔ اللہ کریم ہم سب کو ہمارے نیک مقاصد میں کامیاب فرمائے آمین۔
بہترین لکھاری
Posted on July 21, 2020 By Majid Khan کالم
Shortlink:
Writer
تحریر : انعمتہ عطاریہ
میں سمجھتی ہوں یہاں بڑے بڑے درخشاں ستاروں کی موجودگی میں میرا کچھ کہنا ذرہ بے نشاں کے مترادف ہوگا مگر پھر بھی لب پر آئی بات دوسروں تک پہنچادینے میں مضائقہ نہیں سمجھتی جو احباب کچھ لکھنا چاہتے ہیں مگر لکھنے میں جھجک محسوس کرتے ہیں، اس سوچ میں بیٹھے ہیں کہ لکھیں تو کیا لکھیں اور کیسے لکھیں؟ جو لوگ اخبارات میں لکھ رہے ہیں وہ تو نامور اور تجربہ کار لکھاری ہیں ہم نے کچھ لکھ کر بھیجا تو کہیں مذاق نہ اڑایا جائے وغیرہ وغیرہ،ان لوگوں کے لیے میری سوچی سمجھی رائے کے مطابق کچھ کہنا چاہتی ہوں ہم اکثر بازار جاکر کسی چیز کے لیے دکاندار سے اچھی خاصی بحث کرلیتے ہیں کھڑے کھڑے کسی بھی چیز کی کوالٹی پر اپنی رائے دے لیتے ہیں۔
خبروں پر تبصرہ کر لیتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ہمارے پاس لکھنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں؟ وجہ صرف اور صرف وہی ہے۔ جو میں نے اوپر بیان کی ہے کہ لکھنے میں جھجک محسوس ہوتی ہے ہم سکول پڑھتے تھے تو امتحانات کے دوران کچھ کہانیاں اور مضامین لکھاکرتے تھے جن میں پیاسا کوا، گائے، میری کتاب، کرسی” وغیرہ چند ایسے مضامین ہوتے جو کتاب کے مطابق ہو بہو لکھنے ہوتے اگر کرسی کی چار ٹانگوں کی بجائے تین ٹانگیں لکھ دیتے تو نمبر کٹ جاتے مگر”ایک میچ کا آنکھوں دیکھا حال” ایسا مضمون تھاجو ہم اپنے الفاط میں لکھتے، جو ذہن میں آتا لکھتے ہی چلے جاتے کوئی میچ کے دوران تالیاں بجانے کا ذکر کرتا اور کوئی سیٹیاں بجانے کا، کسی نے میچ دیکھنے کے دوران سموسے کھائے اور کوئی ٹھنڈی بوتلیں پی،ہر کسی نے الگ ہی واقعہ لکھا ہوتا مگر نمبر سب کے پورے آتے وہیں سے ہم پر ادراک ہوا کہ اگر ہم کچھ لکھنا چاہیں اور سمجھ نہ آئے تو کیا لکھیں تو شروعات ایسے واقعات سے ہوسکتی ہے، کسی میچ کا، کسی سفر کا،کسی تقریب کا احوال لکھیں، شہر میں رہائش پذیر ہیں تو مارکیٹ جاکر خریداری کا احوال، پکنک کا احوال، سیر و تفریح کا احوال گا?ں میں رہتے ہیں تو کسی چوپال یا پنچایت میں ہونے والے بحث و مکالمے کا حال، فصل کی بوائی کا،کٹائی کا احوال جو آپ دوسروں کو بتانا چاہیں تو بولنے کی بجائے لکھ کر بتا سکتے ہیں اس لیے اپنے ارد گرد کا مشاہدہ کریں،ایسا کچھ بھی ہو تو ارادہ کریں،قلم اٹھائیں اور لکھنا شروع کردیں بلکل نہ سوچیں کہ یہ سب لکھنے کا مقصد کیا ہے؟
یہ کہیں شائع ہوگا یا نہیں کسی کو پڑھنے میں دلچسپی ہوگی یا نہیں وغیرہ ضروری نہیں کہ جو بھی لکھا جائے وہ تحریر کسی جگہ شائع ہو،ہمارا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ہمیں لکھنا آجائے،کچھ لکھیں تو وہ بامقصد ہو اور ہمارا لکھا کسی کے لیے سود مند ثابت ہوجائے بس لکھیں اور لکھتے اور لکھتے ہی چلے جائیں،لکھنے کے دوران پیچھے مڑ کر نہ دیکھیں، لکھ چکیں تو پھر خوب غور سے تنقیدی جائزہ لیں کہ کتنے الفاظ ہیں جو دوسروں کو دکھائے جاسکتے ہیں، کتنے الفاظ ہیں جو حذف کر دیئے جائیں تو تحریر کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور کتنے الفاظ ہیں جو حذف کرنے ضروری ہیں، اس کے بعد دوبارہ بقیہ تحریر پر نظر دوڑائیں اور جب آپ کا اطمینان ہو جائے تو پھر کسی کو پڑھنے اور نظر ثانی کے لیے دیںاس سے کم از کم اتنا ضرور ہوگا کہ آپ ارد گرد کے ماحول پر گہری نظر ڈالنے لگیں گے، کچھ نیا تلاش کرنے کی جستجو میں لگ جائیں گے،آپ کو مطالعے کی عادت پڑ جائے گی،لکھنے کا شوق پیدا ہو جائے گا،آپ کی جھجک ختم ہوجائے گی اور ایک دن آئے گاجب آپ کے پاس الفاظ کا ذخیرہ ہوگا۔
تحریر میں خود بخود روانی آجائے گی،اگر ہم صرف اس سوچ کے ساتھ لکھیں کہ کسی اخبار میں ہماری تصویر کے ساتھ چھپ جائے اور لوگ ہمیں جاننے لگ جائیں تو کبھی ہمارے لکھنے کا مقصد پورا نہیں ہوگا ابھی ہمیں ضرورت ہی نہیں کچھ چھپوانے کی، ہم تو سیکھنے کے لیے آئے ہیں،جس دن ہم نے کچھ با مقصد لکھ لیا خود ہی کہیں نہ کہیں چھپا ہوا نظر آجائے گامیں سمجھتی ہوں ابھی خود بھی اس میدان میں اترنے کے قابل نہیں ہوئی،ابھی خود سیکھنے کے مراحل میں ہوں،جو باتیں آپ لوگوں سے شیئر کیں خود بھی انہیں پر عمل کرتی ہوں، بہت عرصہ غیر متحرک اور خاموش رہی اور لکھ کر ردی میں ڈالتی رہی مگر اب تھوڑی بہت آپ بیتیاں، مکالمے اور ایسی اصلاحی تحریریں جو کسی کی زندگی میں بہتری لانے کا سبب بن سکیں کبھی کبھار لکھ لیتی ہوں میرا مزاج صحافتی نہیں مگر قصور کی معصوم بچی زینب کے دل دہلا دینے والے واقعہ نے مجھ جیسے کم گو انسان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا اور میں نے پہلی بار اخبار میں لکھنے کے لیے قلم اٹھایا اور اس سانحے نے جتنا غبار میرے اندر بھر دیا تھا وہ سب کاغذ پر نکال دیا جو شائع بھی ہوا۔
اس وقت میرا مقصد صرف اور صرف یہ تھا کہ کوئی انسان ان محرکات پر غور کرلے جو ایسے واقعات کا سبب بنتے ہیں تو میرا لکھنے کا مقصد پورا ہوجائے گایاد رکھیں اگر کوئی ہمارے لکھے پر خوش آئند تبصرہ کرے تو سیروں خون بڑھتا ہے لیکن اگر کوئی تنقید کرے تو ہم بہت جلد ہمت ہار جاتے ہیں،دلبرداشتہ نہ ہوں،تحمل سے کام لیں،دوسروں کی تنقید کواپنی اصلاح کاذریعہ سمجھیں اورخود میں بہتری پیدا کریں میں سمجھتی ہوں زندگی کے کسی بھی شعبے،کسی بھی کام میں تنقید کے بغیر ہمارے اندر کبھی نکھار پیدا نہیں ہوسکتا۔ مجھ جیسے نئے لکھنے والوں کو چاہیے کہ چھوٹی موٹی تحاریر لکھنے سے آغاز کریں، چاہے ایک پیرا ہی ہو مگر اس میں دوسروں کے لیے کوئی سبق ہویا پیغام ہو۔ مثال کے طور پر ایک چھوٹا ساخاکہ پیش خدمت ہے۔بیٹا: باباجانی آپ گھر کے پا س والی مسجد چھوڑ کر اتنی دور کیوں نماز پڑھنے جاتے ہیں؟باپ: بیٹا ہماری قریبی مسجد دوسرے مسلک کی ہے اس لیے میں اتنی دور نماز پڑھنے جاتا ہوںبیٹا: باباجانی! بیت اللہ میں تو سبھی لوگ ایک ساتھ نماز پڑھتے ہیں پھر ہمارے ہاں مسجدیں الگ کیوں ہیں؟باپ: بیٹا سوجائوصبح سکول بھی جانا ہے۔
یہ چھوٹا ساخاکہ اپنے اندر بہت کچھ سموئے ہوئے ہے، اگر چند الفاظ ہی آپ کے پیغام کو دوسروں تک پہنچانے کا سبب بن جائیں تو میں سمجھتی ہوں بہت لمبی چوڑی تحریر کی ضرورت باقی نہیں رہتی میرا یہ سب باتیں کرنے کا مقصد یہی تھا کہ اگر آپ بھی میری طرح اس سوچ میں مبتلا ہیں کہ لکھیں مگر کیسے تو یہاں بہت سے لوگوں کا مقصد یہی ہے کہ ہمارے اندر لکھنے کی تحریک پیدا کی،شوق پیدا کیا جائے۔بہت سی نامور شخصیات ہیں جو ہم جیسے لوگوں کو احساس محرومی سے نکالنے اور رہنمائی کے لیے ہمہ وقت موجود ہیں۔ اس لیے اس موقع کا فائدہ اٹھائیں، عزم کریں اور قلم اٹھالیں۔ اللہ کریم ہم سب کو ہمارے نیک مقاصد میں کامیاب فرمائے آمین۔
Anumta Attariya
تحریر : انعمتہ عطاریہ
by Majid Khan
Nasir Mehmood - Chief Editor at GeoURDU.com