تحریر : طارق حسین بٹ شان افغانستان کے ملحقہ بارڈر چمن میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے پسِ پردہ بھارت ملوث ہے۔وہ افغان حکومت کو پاکستان کی مغربی سرحدوں پر فوجی حملوں پر اکسا رہا ہے تا کہ پاکستانی فوج مغربی اور مشرقی سرحد میں الجھ کر کمزور ہو جائے۔وہ ہمیشہ سے پاکستان کے حصے بخرے کرنے کے لئے سازشوں کا جال پھیلائے رکھتا ہے جس کی سب سے بڑی کڑی کلبھوشن یادیو ہے جو اس وقت ہماری قید میں ہے اور جسے پھانسی کی سزاسنائی جا چکی ہے ۔یادیو ایک ایسا بھارتی جاسوس ہے جس کا نام ہر ایک پاکستانی کی زبان پر ہے کیونکہ وہ پاکستان کی سالمیت اور اس کہ یکجہتی کا دشمن ہے اور ہوش مند قومیں اپنے دشمنوں کو بھولا نہیں کرتیں۔
کلبھوشن یادیو سالہا سال سے پاکستان میں مقیم تھا اوربھارتی حکومت کے لئے جاسوسی کے فرائض سر انجام دے رہا تھا ۔چاہ بہار سے ہوتے ہوئے وہ بلوچستان کے راستے کراچی پہنچا تھا اور اس کے ان لوگوں سے روابط تھے جو پاکستان کی سالمیت، اس کی یکجہتی،اس کی ترقی اور اس کے استحکام کے دشمن تھے ۔دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے جبکہ دوست کے دشمن کو دشمن سمجھا جاتا ہے لہذا پاکستان کے دشمنوں کے لئے کلبھوشن یادیو ایک ایسے دوست کا مقام رکھتا تھا جو ان کے دل میں امیدوں کے دیپ روشن کر سکتا تھا لہذا وہ اپنے اس دوست کی دل کھول کر مدد کیاکرتے تھے کیونکہ دونوں کے اہداف ایک تھے۔
بلوچستان کے قوم پرست حلقے جن کی قیادت براہمداخ بگٹی کے ہاتھوں میں ہے اور کراچی کی لسانی تنظیم جس کی قیادت الطاف حسین کے ہاتھوںمیں ہے کلبھوشن یادیو کے لئے دیدہ و دل فرشِ راہ کئے ہو ئے تھے کیونکہ دونوں کے مقاصد پاکستان کے حصے بخرے کرنا تھا۔انھیں یقین تھا کہ بھارت ان کے آزادی کے خواب کو قریب تر کر سکتا ہے بالکل ویسے ہی جیسے اس نے ١٦ دسمبر ١٩٧١ کو بنگلہ دیش کے قیام میں بنگالیوں کی مدد کر کے پاکستان کو دو لخت کیا تھااوربنگالیو ں کو بنگلہ دیش کا تحفہ دیا تھا۔یہاں کلبھوشن کی مدد کے پیچھے واحد مقصد جناح پور اور آزاد بلوچستان کا قیام تھا لیکن سوچنے کا بات یہ ہے کہ کیا ١٦ دسمبر ١٩٧١ والا فارمولا موجودہ پاکستان پر لاگو ہو سکتا ہے؟ بالکل نہیں کیونکہ اس وقت کے معروضی حالات آج کے زمینی حقائق سے کوئی مطابقت نہیں رکھتے۔مشرقی پاکستان ایک ایسے خطے میں واقع تھا جہاں پاک فوج پہنچنے سے قاصر تھی کیونکہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان بھارت کا علاقہ تھا جو خود بنگلہ دیش کے قیام کی سازش کر رہا تھالہذا بھارتی سر زمین سے پاک افواج کو مشرقی پاکستان پہنچانا ممکن نہیں تھا ؟پاکستان کی اسی اسٹریٹیجک کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارتی قیادت نے بنگالیوں کے دلوں میں متحدہ پاکستان کے خلاف زہر بھرنا شروع کیا تھا جس سے بنگالی قیادت بھارتی سازش کا شکار ہو گئی تھی۔،۔
موجودہ حالات میں بنگلہ دیش کے قیام کے پسِ منظر کو سمجھنا مشکل نہیں ہے لیکن بنگلہ دیش جیسے واقعات روز روز تو ظہور پذیر نہیں ہوا کرتے اور سازشیں روز روز تو کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوتیں۔بنگلہ دیش کی علیحدگی سے پاکستان نے بھی سبق سیکھ لیا ہے کہ پاکستان کی بقا جمہوریت کے تسلسل میں ہے۔اگر چہ پاکستانی جمہوریت جعلی جمہوریت ہے لیکن پھر بھی ووٹ ڈالنے کی حد تک تو اسے جمہوریت کہا جا سکتاہے ۔ یہ سچ ہے کہ ہمارے موجودہ جمہوری نظام میںہمارے اکثر راہنما کر پشن میں لت پت ہیں ۔جوابدہی کا کوئی موثر نظام نہیں ہے۔احتساب ایک بھولا بسرا خواب ہے جس کی وجہ سے فوجی اسٹیبلشمنٹ سیاسی معاملات میں غیر ضروری دخل اندازی کرتی ہے۔ ہمارے ترقی پسند اور امریکہ نواز حلقے جو بھارت کی مدح سرائی میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کرتے ان کے لئے کلبھوشن یادیو کی سزاکسی صدمے سے کم نہیں ہے۔ وہ حیلے بہانوں سے اس سزا کے خلاف آواز اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن معاملہ چونکہ حساس نوعیت کا ہے اس لئے وہ دھیمی سروں میں بات کر رہے ہیں۔وہ پاک بھارت تعلقات کے کھلے حامی ہیں اور کشمیر کو نظر انداز کر کے تعلقات کو بڑھاوا دینا چاہتے ہیں۔
انھوں اس بات کا احساس نہیں کہ کشمیریوں کے خون پر پاک بھارت تعلقات کا محل کیسے تعمیر کیا جا سکتا ہے؟ اور خاص کر اس وقت جب کشمیر جل رہا ہے اور عوام کے دل آزادی کی امنگ سے لبریز ہیں۔امن ترقی کا پہلا زینہ ہے اور پاکستان بھی امن چاہتا ہے لیکن یہ کیسا امن ہے کہ لاکھوں بھارتی فوجی نہتے اور معصوم اور کشمیریوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کریں اور ہم انھیں پھولوں کے ہار پہناتے رہیں؟یہ امن کی خواہش نہیں بلکہ بے غیرتی ہے اور ہمیں امن کی خواہش اور بے غیرتی میں خط ِا متیاز کھینچنا ہو گا ۔قومیں غیرت و حمیت سے ہی زندہ رہتی ہیںلہذا ہمیں بھارت جیسے مکار دشمن کے سامنے ایک با غیرت اور با ہمت قوم بن کر کھڑا ہو نا ہو گا۔یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ بھارت جنوبی ایشیا کی ایک بڑی علاقائی پاور ہے لیکن ہمیں بھارت کی طاقت سے مرعوب ہونے کی بجائے اصولوں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرنی چائیے کیونکہ جو قومیں اصول پسندی کا مظاہرہ کرتی ہیں آخرِ کار وہی فتح یاب ہو تی ہیں۔بھارت ہمارا ہمسایہ ہے ہم اس سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں لیکن اسے بھی تو ثابت کرنا ہو گا کہ وہ ہمارے ہاں کلبھوشن یادیو جیسے جاسوسوں سے ہماری سالیمت پر حملہ آور نہیں ہو گا؟۔،۔
ابھی تو کل کی بات ہے کہ آزا د بلوچستان اور جنا ح پور کے نقشے چھاپے گئے تھے اور پیشن گوئی کی گئی تھی کہ ٢٠١٦ تک پاکستان کئی ٹکروں میں تقسیم ہو جائیگا ۔یہ اسی پیشن گوئی کا اثر تھا کہ بلوچستان میں بلوچ لبریشن آرمی نے آزادی کا اعلان کر دیا۔کوئٹہ اور گردو نواع کے شہروں میں غیر بلوچیوں کو جس طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ان کے قافلوں پر حملے اور ان کے اہلِ خانہ کا سفاکانہ قتل روزمرہ کے معمول بن گئے ۔ایسے لگتا تھا کہ بلوچستان میں کسی حکومت کا کوئی وجود نہیں ہے ۔حالات دگرگوں ہوتے چلے گئے اور بلوچستان آگ اور خون میں نہلاتا رہا۔حکومت بھی دبک کر بیٹھ گئی اور یوں پاکستان کے دشمن ریاست سے زیادہ طاقتور ہو گئے ۔بلوچستان لبریشن آرمی کی ساری سرگرمیاں بھارتی ایجنسی را کی مدد سے سر انجام پاتی تھیں۔حالات یہاں تک بگڑے کہ پاکستان کا نعرہ لگانے والوں کو موقع پر ہی گولی مار دی جاتی تھی۔
سکول اورکا لجز میں قومی ترانہ گانا ایک جرم تصور ہونے لگاپاکستان کے حامی کمزور اور آزاد بلوچستان کے حامی مضبوط تر ہوتے چلے گئے۔پاکستانیت سسکتی ہوئی محسوس ہونے لگی اور اس کے آنسوئوں کو پونچھنے والا بھی کوئی نہیں تھا۔ایک طرف بلوچستان کی یہ کیفیت تھی جبکہ دوسری طرف کراچی میں الطاف حسین کی ایم کیو ایم نے بد امنی اور قتل و غارت کی انتہا کر دی ۔بوری بند لاشیں اور ٹارگٹ کلنگ روزمرہ کا معمول بن گئے اور کسی کی جان و مال کا تحفظ مشکل تر ہو گیا۔لوگ اتنے خوفزدہ ہو گئے کہ انھوں نے اپنے معمولاتِ زندگی بدل لئے۔سرِ شام کراچی کی رونقیں ماند پڑ گئیں اور وہ شہر جسے روشنیوں کا شہر کہا جاتا تھا سرِ شام ہی اندھیروں میں ڈوبتا چلا گیا اور یہ اندھیرے بھارتی سازشوں کا نتیجہ تھے جس میں اپنوں کی بے وفائی بھی شامل تھی۔یہ تو بھلا ہو جنرل راحیل شریف کا جس کے پر زور اصرار پر اپریشن ضربِ عضب کا آغاز ہوا۔ بلوچستان اور کراچی شہر کو رینجرز کے حوالے کر دیا گیا۔کراچی جو بھارتی سازشوں کا گھڑھ تھا دھیرے دھیرے امن کی جانب گامزن ہو نے لگا اور جاسوسوں کیلئے اس کی زمین تنگ ہو نے لگی۔الطاف حسین کے چیلے چانٹے جو کہ بھارتی ہاتھوں میں کھیل رہے تھے انھیں چن چن کر گرفتار کیا گیا اور ان کی ایسی درگت بنائی گئی کہ ان کی زندگی موت سے بھی بد تر ہو گئی ۔پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگوانے والوں سے کیا ان لوگوں کی اولادیں محبت کریں گی جھنوں نے اپنے پیاروں کے لہو کا نذرانہ دے کر پاکستان کی طرف ہجرت کی تھی؟قائد کی محبت اپنی جگہ لیکن وطن کی محبت قائد سے زیادہ بلند اور گہری ہوتی ہے ۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ وطن کو گالی دینے والے سے وطن کے سپوت محبت کریں۔الطاف حسین کا زوال ایک عبرت ہے ان لوگوں کے لئے جو وطن سے بے وفائی کے مرتکب ہوتے ہیں۔،۔
Tariq Hussain Butt Shan
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال