تحریر: سید انور محمود انیس سو تیرہ (1913) میں امریکہ کی تین یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم کچھ سکھ، ہندو اور مسلمان طلبہ نے امریکہ کے شہر سان فرانسسکو میں غدر پارٹی قائم کی۔ غدر پارٹی کے قیام کا مقصد متحدہ ہندوستان کو مسلح جہدوجہد کے زریعے برطانوی تسلط سے آزاد کرانا تھا۔ 1915میں غدر پارٹی کے ارکان امریکہ اور کینیڈا سے ہندوستان آئے اور مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر برطانوی فوج میں موجود مقامی سپاہیوں کو بغاوت پر اکسانے لگے۔ پارٹی کی قیادت نے لاہور کے علاقے میاں میر کی فوجی چھائونی اور فیروز پور کی فوجی چھائونی پر حملہ کرکے اسلحہ قبضہ میں لینے کا منصوبہ بنایا تاکہ دہلی پر حملہ کیا جائے لیکن لاہور میں غدر پارٹی کے خفیہ مرکز پر چھاپہ مارکر کرتار سنگھ، حافظ عبداللہ، ہرنام سنگھ سیالکوٹی، بابورام اور دیگر کو گرفتار کرلیا گیا۔ بھگت سنگھ کے والد اجیت سنگھ بھی غدرپارٹی میں شامل تھے۔ انہیں بھی گرفتار کرلیا گیا۔ سینٹرل جیل لاہور میں کرتار سنگھ اور حافظ عبداللہ وغیرہ پر مقدمہ چلا کر ان سب کو پھانسی پر لٹکادیا گیا۔غدر پارٹی کے یہ بہادر قائدین بھگت سنگھ کا آئیڈیل تھے۔
بھگت سنگھ28 ستمبر 1907 کو ضلع لائل پور (فیصل آباد) کی تحصیل جڑانوالہ میں پیدا ہوا۔ 1919میں صرف 12 سال کی عمر میں وہ خود سانحہ جلیانوالہ باغ کی جائے وقوعہ پر چند گھنٹے کے بعد پہنچا تھا، جہاں برطانوی سرکار کے حکم پر نہتے لوگوں پر گولیاں چلا کر1500 افراد کو بے گناہ مار دیا گیا تھا اور جائے وقوعہ پرمقتولوں کا خون تازہ تھا ۔ انقلاب کا راستہ بھگت سنگھ نے خود چنا تھا ۔ بھگت سنگھ کو اپنی زندگی سے زیادہ عزیز انگریزوں سے آزادی حاصل کرنا تھی۔اس کی سوچ انقلابی تھی، اس کا کہنا تھا کہ’’میں انقلاب کی علامت کو داغ دار نہیں ہونے دوں گا ۔ میرے اصولوں کے سامنے زندگی کی کوئی حیثیت نہیں ہے‘‘ ۔ نوجوان انقلابی بھگت سنگھ انگریز سامراج سے آزادی کی کوششوں کے دوران کئی بارگرفتار کیا گیا لیکن وہ کسی بھی قیمت پر اپنے نظریات کو بدلنے سے انکاری تھا۔ انگریز حکومت نے بھگت سنگھ کو تحریک آزادی ختم کرنے کے عوض راجباہ پاؤلیانی جڑانوالہ کے تمام چکوک کی زمین دینے کی پیشکش کی تھی مگر اس نے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ “زمین ہماری ہے تم کون ہو جو ہمیں دیتے ہو۔ تم برصغیر کو چھوڑ دو۔ میری جدوجہد لوگوں کے حقوق اور دھرتی کی آزادی کے لیے ہے اپنے یا اپنے خاندان کے مفاد کے لیے نہیں”۔
بھگت سنگھ مہاتما گاندھی کا سخت گیر پیروکار تھا لیکن20 فروری 1921 کو ننکانہ صاحب گوردوارا میں نہتے انسانوں کو تہ تیغ کیا گیا، اسی بنا پر وہ مہاتما گاندھی کی عدم تشدد کی تحریک سے متنفر ہوگیا۔ اسکا ماننا تھا کہ “گولی کا جواب گولی سے ہی دیا جا سکتا ہے”۔ یہ ہی وجہ ہے کہ جب انصاف نہیں ملتا ہے تو بھگت سنگھ پیدا ہوتے ہیں ۔ 1928 میں برطانوی سائمن کمیشن جس میں ہندوستانیوں کی کوئی نمائندگی نہیں دی گئی تھی اس کی لاہور آمد کے موقع پر تحریک آزادی میں شامل جماعتوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے کسانوں کے انقلابی رہنما لالہ لجپت رائے زخمی ہوگئے ۔ کچھ دن بعد ان کا انتقال ہو گیا ۔ یہ بات بھگت سنگھ سے برداشت نہ ہوئی اور اس نے لالہ لجپت رائے کی موت کا بدلہ لینے کا فیصلہ کیا ۔ ایک دن اس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ انگریز پولیس افسر ایس پی اسکاٹ پر حملہ کیا اور شناخت کی غلطی کی وجہ سے ایک دوسرا انگریز پولیس افسر ڈی ایس پی ، جان پی سنڈریس مارا گیا ۔ بھگت سنگھ نے آٹھ اپریل 1929 کو اپنے ایک ساتھی باتوکشور دت کے ساتھ ملکر لاہور میں پنجاب اسمبلی میں، انقلاب زندہ باد، جئے ہندوستان، کے نعرے لگاتے ہوئے دو بم دھماکے کیے۔ اس وقت قائد اعظم محمد علی جناح اسمبلی میں موجود تھے لیکن وہ اس حملے میں زخمی نہ ہوئے۔ ایک رات لاہور کی کشمیر بلڈنگ سے تمام انقلابی گرفتار کرلیے گئے۔
لاہور کے سینٹرل جیل کے کمرۂ عدالت میں بھگت سنگھ پر مقدمہ چلایا گیا۔ بھگت سنگھ اور باتوکشور دت اس سے قبل اسمبلی بم کیس میں سزا پا چکے تھے۔ مقدمہ تین سال تک چلتا رہا۔ بھگت سنگھ اور سکھ دیو کو سزائے موت کا حکم دیا گیا۔ بھگت سنگھ کو 23 مارچ 1931 کو ان کے انقلابی ساتھیوں کے ساتھ انگریز سرکار نے جب پھانسی دی تو اس کی عمر صرف 23 سال تھی، اس کے ساتھ پھانسی پانے والوں کی عمریں بھی زیادہ نہیں تھیں، سب نوجوان تھے۔ عام لوگوں کا ماننا ہے کہ جب تک آزادی کی تاریخ میں بھگت سنگھ کا نام نہ آئےتب تک پاک و ہندو کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے بھگت سنگھ کو اپنا ہیرو قرار دیا تھا ۔ برطانیہ کی کمیونسٹ پارٹی نے بھگت سنگھ کے مقدمے کے فیصلے پر سخت تنقید کی اور کہا کہ یہ فیصلہ سامراجی درندگی کا مظہر ہے ۔ گاندھی نے بھگت سنگھ کو حق پر قرار دیا لیکن اس کی پھانسی سے صرف چار دن پہلے 19 مارچ 1931 کو’عدم تشدد کا علمبردار‘ گاندھی نے اس وقت کے برطانوی وائسرائے لارڈ ارون کے ساتھ ایک معاہدہ کیا، معاہدے کےلیےمذاکرات بھی کیے، اس دوران اگر وہ چاہتا تو رحم کی اپیل کر کے ان انقلابیوں کی زندگیاں بچاسکتا تھا۔ عوام میں اس معاہدے کے خلاف شدید نفرت اور غصہ تھا کیونکہ اس میں بھگت سنگھ، راج گرو اور سکھ دیو کو نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ کانگریس کے اہم رہنما ڈاکٹر سبھاش چندر بوس نے انتہائی غصے کے عالم میں کہا تھا کہ’’ہمارے اور برطانویوں کے درمیان خون کا ایک دریا اور لاشوں کا ایک پہاڑ کھڑا ہے۔ گاندھی کی جانب سے کیے گئے سمجھوتے کو ہم کسی صورت قبول نہیں کر سکتے‘‘۔
بھگت سنگھ ہر عہد کے نوجوانوں کا ہیرو رہے گا ۔ 2008ء میں ’’ انڈیا ٹو ڈے ‘‘ نے ایک سروے کرایا تھا ، جس میں نوجوانوں نے بھگت سنگھ کو گاندھی اور سوبھاس چندرا بوس سے بھی بڑا آدمی قرار دیا ۔ تاریخ کا ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ کوئی مجسٹریٹ بھگت سنگھ کی پھانسی کے وقت وہاں کھڑا ہونے اور موت کے سرٹیفیکٹ پر دستخط کرنے کےلیے تیار نہیں تھا ۔ ایک نوجوان آنریری مجسٹریٹ نے یہ کام کیا ، اس مجسٹریٹ کا نام نواب محمد احمد قصوری تھا۔ نواب قصوری وہی شخص ہے، جو اپنے عہد کے ایک اور بھگت سنگھ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا سبب بنا ۔ نواب قصوری کو اسی جگہ قتل کیا گیا تھا ، جہاں بھگت سنگھ کو پھانسی ہوئی تھی ۔ اس جیل کو بعد ازاں توڑ دیا گیا تھا اور آج وہاں لاہور کا شادمان چوک ہے ۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ کے ہیرو اورنشان حیدر پانے والے راجہ عزیز بھٹی شہید نے ایک مضمون میں بھگت سنگھ کو اپنا ہیرو قرار دیا تھا۔
آج پاکستان میں اس بات پر ایک دوسرئے سے اختلاف کیا جارہا کہ شادمان چوک کا نام کیا ہونا چاہیے، جنرل ضیاءالحق جو مذہبی شدت پسندی اس ملک میں چھوڑ گیا ابھی اس کو ختم ہونے وقت لگے، حالانکہ وہ تمام لوگ جو شادمان چوک کا نام بھگت سنگھ کے نام پر رکھنے کے مخالف ہیں وہ جانتے ہیں کہ بھگت سنگھ نے اپنی پیدائش سے پھانسی گھاٹ تک کا سفر غلام ہندوستان میں طے کیا تھا، وہ برطانوی ہندوستان کا شہری تھا، اس کی پھانسی کے وقت کسی ایک بھی مسلمان کے خواب و خیال میں بھی پاکستان نہ تھا۔ایک انسان جو دوسرے انسانوں کے لئے آزادی کی جنگ لڑئے، ایسے ہیرو اور شہید کی شہادت اور قربانیوں کو فراموش کرنا سراسر زیادتی ہے۔ بھگت سنگھ شہید ہماری تاریخ کا سرمایہ ہیں ان پر جتنا ناز کیا جائے کم ہے۔