تحریر : سائرس خلیل ایک عظیم انقلابی شخصیت پر قلم اٹھانے جا رہا ہوں جس کی عظمت کو دشمن بھی سلام کرتے ہیں.بھگت سنگھ ایک نامور مجاہد،مصنف اور انقلابی شخص۔۔آہ بھگت سنگھ—ـ 28 ستمبر 1907 کو لائل پور (پنجاب پاکستان) میں پیدا ہونے والا نام بھگت سنگھ جس کو مذہب سکھ مت رکھنے کی وجہ سے ہماری تاریح میں جگہ نہیں دی گئی۔ جیسا کہ ہندوستان نے ٹیپو سلطان کو مسلمان ہونے کی بنیاد پر تاریخ میں جگہ نہیں دی۔ خیر سنگھ کی جدوجہد کو ایک آرٹیکل میں سمانا ناممکن سی بات ہے۔ پھر بھی ایک سرسری سی نظر ڈالتے ہیں۔
بھگت سنگھ نے جس خاندان میں آنکھ کھولی وہ انگریز راج کے خلاف ہر محاز پر کھڑی رہنے والی فیملی تھی۔ سنگھ کی پیدائش اُسی دن ہوئی جب اُن کے والد، اور دو چچا انگریز قید سے رہا ہو رہے تھے، جس کی وجہ سے خاندان میں ان کو خوش قسمتی کا ستارہ سمجھا جانے لگا۔ ایک آزادی پسند گھرانے میں پیدائش کا فائدہ یہ ہوا کہ بھگت سنگھ کے اندر بغاوت اُس کے خون اور تربیت کا حصہ بن گئی۔ جوں جوں وقت گزرا حالات نے رخ بدلا، سنگھ کی آنکھ نے گہرائی محسوس کرنے کا ہنر سیکھا اور سنگھ مارکس کے خیالات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے میدان میں کود پڑا۔ایک حقیقی آزادی کے حصول اور ایک اصل انقلابی کی طرح کام کرنے لگا۔سترہ سال کی عمر میں پنجاب میں”زبان کے مسئلے”پر مضمون لکھ کر مضمون نگاری میں انعام حاصل کیا۔جس کے باعث سترہ سال کی ہی عمر میں ایک عظیم مفکر کے طور پر جانے لگے۔ سنگھ اپنی ٹین ایج(Teen age) میں ہی سیاسی سرگرمیوں میں دلچسپی لینے لگے تھے۔اُن کی پہلی سیاسی تنظیم اینـبیـایس تھی جو کہ اُن کی اپنی تنظیم تھی اور طلبہ مسائل کو حل کروانے کی کوشش کر رہی تھی ۔ اُس کے جنرلـسیکٹری کے فرائض سنگھ خود سنبھال رہے تھے۔
دہلی1928 میں ایک ہنگامی میٹنگ بلائی اور ایک جماعت ہندوستان ریپبلک ایسوسی ایشن (ایچـآرـآے) کا نام باہمی مشاورت سے بدل کر ہندوستان ریپبلک سوشلسٹ ایسوسی ایشن(ایچـآرـآیسـآے) رکھ دیا۔ جس کے نام پر زُور صرف سنگھ نے دیا تھا۔اس کے بعد عملی طور پر سنگھ نے سوشلسٹ انقلاب کے لئے جدوجہد شروع کر دی۔ اور اس کے سائے تلے محنت کشوں کو اکھٹا کرنے کے لئے کوشش کرنے لگے۔ بھگت کی تحریک ایک اصل ہندوستانی عوام کی تحریک تھی جسکا نقصان گاندھی اور محمد علی جناح کی تحریکوں کو تھا۔ گاندھی خری وقت تک بھی اگر چاہتا تو بھگت اور اس کے ساتھیوں کو بھانسی سے بچا سکتا تھا مگر جب جنگ اپنے ذاتی اقتدار کی ہو تو تب اپنیت نہیں بلکہ مفاد کو ترجیح دی جاتی ہے اور گاندھی نے بھی ایسا ہی کیا۔
اِسی اثناء میں ساؤنڈر کا قتل ایک ریلی میں ہنگامے کے دوران سنگھ نے کر دیا کیونکہ ساؤنڈر برطانیہ کے ہرادل دستے کا اہم جُز تھا اور ساتھ ہی ساتھ بہت سے انقلابیوں کا قاتل بھی تھا۔جن میں سوفہرست لالہ لاجپت رائے کا نام آتا ہے۔ سانڈر نے لالہ لاجیت کو شہید کیا تھا جو کہ اُس وقت کہ ایک مقبول عوامی راہنما تھے۔لالہ لاجیت کو بھگت سنگھ اپنا اُستاد مانتا تھا۔اِسکے قتل کے بعد انہوں نے ساؤنڈر کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اور انقلابیوں کے قاتل ساؤنڈرس کو جہنم وصال کر دیا۔اُس کے قتل کے بعد سنگھ کو یقین ہو چکا تھا کے اس کی زندگی کا سورج غروب ہونے والا ہے۔ سنگھ باقی زندگی میں بہت سے کام جلدی جلدی پر کم سے کم نقصان پر کرنا چاہتے تھے۔ ساؤنڈر کے قتل کے بعد عوام میں بھی جوش و خروش پایا گیا جس کو سنگھ نے ضائع نہیں ہونے دیا اور عوام کو ایک آزادی کی راہ دیکھلائی۔1929 کو اپنی آواز کو بلند و بالا سامراج کے قلعوں تک پہنچانے کے لئے غیر مہلک بم مرکزی مجلس مقننہ میں پھینکے۔ جس کا مقصد ”انقلاب زندہ باد اور سامراجیت مردہ باد”کے نعرے کو تقویت پہنچانا تھا۔ اسی دوران ان پر عدالت میں مقدمہ چلا اور ان کو ساؤنڈر قتل کیس میں پھانسی کی سزا ہوئی۔ مزے کی بات یہ ہیکہ سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے مقدمہ سے بائیکاٹ کر لیا تھا اور یہ عدالت کا فیصلہ یک طرفہ فیصلہ تھا جسکی قانونی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ جس کو مسلط کیا گیا تھا۔
تمام مجسٹریٹ نے پھانسی کی سزا دینے سے انکار کر دیا تھا پھر محمد نواب قصوری کو اعزازی اختیارات دے کر دستخط لیئے گئے اور یوں 24مارچ صبح چھ بجے کو پھانسی کا فیصلہ ہوا جس کو سامراجیت نے عدالتی حکم کو پسِ پشت ڈالا اور عالمی پھانسی کے قانون کو توڑ کر 23مارچ کی شام سات بجے ہی پھانسی دے دی گئی۔ قدرت کا رنگ ہی نرالا ہوتا ہے ٹھیک پچاس سال بعد محمد نواب کو بھٹو دور میں لاہور کہ اسی چوک میں گولیاں مار کر جہنم رخصت کیا جاتا ہے۔ خیر سنگھ کی شہادت کی خبر باہر نکلی تو وہ لاہور شہر میں آگ کی طرح پھیلی تمام آزادی پسندوں نے جیل کے قریب پہنچ کر جیل کو توڑنا شروع کر دیا۔جس سے برطانیہ کے افسروں میں ڈر پیدا ہو گیا۔
انھوں نے سنگھ اور اس کے دو ساتھیوں کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں کاٹ کر تھیلوں میں پیک کیا اور دریا کے کنارے لے جا کر جلا ڈالا۔ جس کو بعد میں ڈھونڈ لیا گیا۔ سنگھ ایک ایسا تاریحی اور انقلابی شخص تھا جس نے قوم و ملک کے لئے اپنی زندگی وقف کر دی تھی۔جس کا سنگھ نے ایک خط میں اپنے والد کو بتایا بھی تھا۔سنگھ نے 15 دن موت کی دنیا (جیل) میں بھوک ہڑتال کی، آخری دنوں میں 4بُکس لکھیں۔ اور بہت سے نوٹس مرتب کیے جن کو عوامی سطح پر حکومت کو سامنے لانے کے لئے اقدامات کرنے چاہیے ۔اِس عظیم مجاہد کی قربانیوں کو تاریخی صفحات پر نمایاں کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ سنگھ کی قربانیوں کو اس کا اصل صلہ دیا جائے قوم کو اِس کے متعلق بتایا جائے۔اس سے نہ صرف حق گوئی کو تقویت ملے گئی بلکہ آنے والی نسل کو بھی ایک تحریک ملے گئی اور ظلم و ستم کے خلاف بولنے کا حوصلہ ملے گا۔