تحریر: محمد وقار ویلنٹائن ڈے کو کیوں نہ منائیں؟۔ ہم وہ لوگ ہیں کہ جس کسی نے جس راستے پر چلا دیا ہم چل دیئے اپنی چال کس جانب لے جا رہی تھی یہ فراموش کردیا اور اپنے پر مسلط کئے جانے والے راستے کو درخشاں سمجھ لیا ۔میں یہ کہتے ہوئے پشیماں ہوں کہ ہم اب اپنے ویژن پر نہیں چلتے بلکہ کسی دوسرے کے فلسفاتی تخیل کی زد میں آکر اس کے کہے پر ہمہ تن گوش ہوئے جاتے ہیں،کسی سے متاثر ہوکر اس ہی کے خیال کو حقیقت کا آئنہ مان لیتے ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ اس دن کو منانے کے پیچھے غلیظ و ناپاک تعلقات کو بڑھاوا دینا مضمر ہے جو کہ ایک بڑی حد تک بجا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عام دنوں میں ناجائز تعلقات استوار نہیں ہوتے لڑکے ،لڑکیاں ڈیٹ پر نہیں جاتے کیا ان کی معشوقی پروان نہیں چڑھتی؟اک دوجے کا دل موہ لینے کے لیے تحائف کا تبادلہ نہیں ہوتا؟ لو اسٹوریز نہیں بنتی ہیں؟ نفس کی قید میں آئے بشر غلط رشتے بنانے کاارتکاب نہیں کرتے؟ خیر چھوڑیے ،ویسے عام دنوں میں بے حیائی کی جائے تو شاید اس میں کوئی بُری بات نہیں ہے یا یہ اُس طرح سے آج کل کے علماء کے نزدیک مذمت کرنے کی بات بھی نہ رہی ہے؟ تو پھر غیر مسلموں کی رسوم ، عیدیں اور تہوار کو بھی ذرا سا منا لینا اٹل گناہ کیوں ہے؟ ۔
دوغلی پالیسی کیوں ہے پھر تو عام دنوں میں بھی اس ہی طرز کی مغربی تہذیب کی تقلید کو مغلظات کے برابر سمجھا جائے یا پھرآوے کا آوا اس ہی طرح بگڑا رہنے دیں ۔ لبرلز ایسی ایسی تاویل پیش کرتے ہیں کہ انسان غصے سے سیخ پا ہوجاتا ہے مگر ”منانے میںآخر حرج ہی کیا ہے ” کہنے والے لبرلز پر تو لعن طعن کی جا سکتی ہے لیکن لبرلزم پر نہیں کی جا سکتی کیونکہ یہ ایک جامع فلسفہ ہے ایک یونیورسٹی کے سخت لیکچرر نے رول نمبر وائس بٹھانے کی جسارت میں طلبا و طالبات کو کڑسیاں جڑوا کر بیٹھا دیا جبکہ طالبات کی تعداد اُس کلاس میں کم تھی بہتر تو یہ تھا کہ طالبات کی ناموس و عزت کی پاسداری کرتے ہوئے انہیں الگ ہی بیٹھے رہنے دیا جاتا مگر جدید سوچ رکھنے والے موصوف استادنے اس میں کوئی عار محسوس نہیں کی۔ یہ بات حقیقی ہے کہ تمام بے ہودگی ،حیاء سے دوری اور فحاشی خرافات کا مجموعہ ہے جس کے خلاف جتنی آواز اٹھائی جائے کم ہے۔ مسرت اس بات کی ہے کہ شدومد کے ساتھ اس دن کو منانے میں کمی واقع ہوئی ہے ممالک یہ جان رہے ہیں کہ اس قسم کے دن نوجوان نسل کو بے راہ روی کے تاریک کنویں میں مسخ کر رہے ہیں
Muslim countries
ان کی شائستگی اور توقیر بے وقاری کے دریا میں غرق ہو رہی ہے ،یہ کمی آئی تو ہے مگر اب بھی اربوں روپیے ناجائز تعلق کو قائم کرنے کے لیے تحفہ دے کر خرچ کئے جا رہے ہیں ۔مسلمان ممالک کی حکومتوں نے اس دن عریانی پھیلانے والوں کے تدارک کے بہتر تدبیری حکمتِ عملی طے کر لی ہے۔اسلام آباد اور دیگر شہروں میں پولیس کی اسپیشل ڈیوٹی ترتیب دی جاچکی ہے کہ وہ فحاشی و بے حیائی سے اس دن کو منانے والوں سے نبرد آزما ہوسکیں اس دفعہ باقاعدہ توثیق ہوچکی ہے کہ کم سے کم اشخاص کسی بھی ایسی سرگرمی میں ملوث ہوں۔بلاشبہ اسلام محبت و اخوت کا دین ہے اور اسلام واحد مذہب ہے جس نے امنیت و تحیت کے جذبے کو ایسے عام کیا جو کسی نے نہیں کیا بے شک محبت کا جذبہ کسی صورت معدوم نہیں کیا جاسکتا یہ سرشار ہی رہتا ہے۔اس دن کو اسلام کی روح سے منانے میں کوئی مضائقہ قطعی موجود نہیں اگر شریعت کی پاسداری کی جائے،حدود و قیود کا خیال رکھا جائے اور مساوات کو قائم رکھیں اپنے مذہب کے شعائر سے اتصال کریں۔ ازراہِ محبت اپنی بیوی اپنی والدہ ،اپنی بہنوں،بھائیوں کو اتحاف دے کر پاکیزہ رشتوں میں محبت کی تجدید بھی تو کی جا سکتی ہے،ضروری نہیں ہے کہ کسی غیر محرم کی زلفوں کا ہی آسیر ہوا جائے اپنے رشتوں سے بھی تو قربت ظاہر کی جانی چاہیے۔
نئی نسلیں اس ناسور میں اتنی بے دردی سے ابتلا ہیں کے ان کی اس نقل کرنے والی جستجو ماند ہی نہیں پڑتی اگر وہ رواداری کو اپنا لیں تو وہ اتصاف کے لائق قرار پائیں گے۔ اگرمیں اس دن کو اپنوں سے محبت کا رنگ دے کر جائز قرار دینا چاہوں تو یہ بہت دقیق ہے کیونکہ اتنے سالوں سے اسے اسلام مخالف اور اسلامی تعلیمات کے منافی کہا جارہا ہے اس دن سے ہی نفرت کی جارہی ہے مگر پھر بھی نوجوان نسل اسے جوش و خروش سے منارہی ہے اور وہ تمام صریح دلائل سے اکتاہٹ کا اظہار کرتے ہوئے اسے اپنے نفوس کی آواز پر مناتے چلے جارہے ہیں۔ یہ سوچ ہرگز کوئی نئی اختراع نہیں اور مجھ جیسے اور بہت یہ کہہ چکے کہ اس دن کو اپنے گھر والوں ،احباب ،عزیز و اقارب کے ساتھ پاک طینت ہوکر منایئے مگر علماء کی جانب سے یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ اس دن ہی کو کیوں؟ جس کا جواب یہ ہے کہ ماڈرانائزیشن نے نئی نسل کو اپنا ایسا گرویدہ بنا لیا ہے کہ وہ اس دن کو اگر نہیں منائیں گے تو اپنے فرینڈز سرکل میں معیوب اور بے چارے سمجھے جائیں گے اس لیے بہتر یہ ہے کہ وہ انہیں اسلامی اقدار کا درس دیا جائے اور یہ بھی سمجھا یا جائے کہ وہ اپنے اطوار وعادات کو تبدیل کریں اپنے عزیز رشتوں کی قدرومنزلت کو پہچانیں اور ان کی تکریم کریں،اپنا بہتر مستقبل بنائیں بیاہ کی عمر کو پہنچ کر جائز طور طریقہ سے نکاح کر کے اپنے شباب کی خواہشات کو پورا کریں۔سرخ گلاب دینے کو اتنے ہی اتاولے ہیں تو اسے اپنے اساتذہ کو دیں کہ جنہوں نے انہیں اپنی شفقت سے گروم اور پالش کیا معاشرے میں جلالِ وقاری کے جاذب بنایا۔