بھکاری

Bhkari

Bhkari

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

موجودہ دور کی مشینی مادیت پرست مصروف زندگی سے جان چھڑا کر میں آج پھر شہنشاہِ لاہور سید علی ہجویری کے دربار پر انوار پر آیا ہوا تھا ‘ موجودہ دور کی مشینی بھاگ دوڑ میں آج کا انسان اتنا مصروف ہو گیا ہے کہ وہ اپنی باطنی سرشاری اندر کی خوشی ‘ حقیقی خوشی سے محروم ہو چکا ہے ‘ میرا باطنی بے کیفی اضطراب جب بھی حد سے بڑھتا ہے روح کی بے کلی تھکے ہو ئے پرندے کی طرح پھڑ پھڑانا شروع کر دیتی ہے ‘ دماغ اعصاب روح بو جھل پن کا شکار ہو نے لگے تو میں اکثر مر شد کریم شہنشاہِ بحر وبر امام بری سرکار کے مزار پر انوار کی آغوش میں جاکر اپنی بے جان روح کی بیٹری چارج کر نے چلا جاتا ہوں یا پھر شہنشاہِ لاہور کے پر سکون صحن میں آبیٹھتا ہوں۔

آج بھی اِسی کیفیت میں تاریخ تصوف کے عظیم روشن مینار جس کی روحانی شعاعوں سے کروڑوں لوگوں نے بالیدگی پائی بے نور اندھی روحوں کے زنگ کو صاف کیا میں بھی اپنے چند دوستوں کے ساتھ مزار پر حاضری کی سعادت کے بعد دربار سے ملحقہ خوبصورت مسجد کے صحن میں آکر بیٹھ گیا ‘ جنور ی کامہینہ سورج دیوتا آ ج لوگوں میں کھل کر اپنی آنچ سے بھرپور دھوپ بانٹ رہا تھا سامنے سید علی ہجویری کا مزار پرانوار مسجد کا صاف ستھراصحن شدید سردی کے موسم میں تیز دھوپ میں نظروں میں مزار کا منظر اور جسم پر دھوپ کی حرارت سورج کی تمازت نے رگوں میں دوڑتے خون کو گرمایا تو جسم آرام دہ حالت سے نیم غنودگی میں جانا شروع ہو گیا۔

میں مزار کے منظر سید علی ہجویری کا روحانی فیض اور سور ج کی دھوپ سے لطف لے رہا تھا قلب و روح جسم سرشاری سے ہمکنار ہو رہے تھے میں قطرہ قطرہ لطف سرشاری کیف نشاط کو انجوائے کر رہا تھا میرا جسم اور روح دونوں اب چارج ہو رہے تھے میں دنیا سے کٹ کر روحانی جسمانی طور پر ایک خاص کیف سے گزر رہا تھا اپنی قسمت پر ناز کر رہا تھا کہ شہر لاہور کو قدرت نے سید علی ہجویری کی صورت میں کتنا بڑا تحفہ دیا ہے جو ہر دن رات ہزاروں جسم و روح کے پھولوں کی پیاس صدیوں سے بجھا رہا ہے اور روز قیامت تک یہ سلسلہ اِسی طرح جاری و ساری رہے گا صدیوں کا غبار اِس سید زادے کی شان کو نہ دھندلا سکا بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ آپ کی شان میں اضافہ ہی ہو تا جا رہا ہے ‘میرے جیسے ہزاروں نشستگان روحانی شہنشاہ کے چشمِ معرفت کے مو تی اپنی خالی جھولیوں میں بھر کر لے جاتے ہیں ‘ صاحب مزار کے روحانی فیض دھوپ کی حرارت بخش کرنوں نے میرے قلب و جان کو ایک خاص قسم کے سرور سے دوچار کر دیا تھا۔

جسم و روح کا نشہ سرور و مستی میں ڈھلنا شروع ہوا میرے ہاتھوں میں سچے مو تیوں سے بنی مالا پر میری انگلیاں گر دش کر رہی تھیں جو ا ب تھمنا شروع ہو گئی میرا جسم مراقباتی حالت میں داخل ہو کر ہاف سلیپ موڈ میں چلا گیا تھا ‘ وقت تھم چکا تھا میں دنیا کے ہنگاموں سے کٹ کر خاص سکون نشہ آمیز کیفیت میں تھا ‘ میں نے اپنے جسم کو ڈھیلا چھوڑ دیا تھامیری شعوری مزاحمت دم توڑ چکی تھی ‘ صاحب مزار کے روحانی انجیکشن سورج کی حرارت آمیز دھوپ اب جسم و روح دونوں نشاط انگیز گھڑیوں سے گزر رہے تھے ‘ میں نے خود کو اِس کیف انگیز سر شاری کے حوالے کر دیا نیم مدہوش سا ہو گیا لمحے صدیوں میں بدلے یا صدیاں لمحوں میں’ میں دنیا سے بے خبر تھا میں جب بھی کسی صاحب مزار کے دربار پر سلام کے لئے حاضر ی دیتا ہوں تو دعا کے بعد کسی ستون سے لگ کر بیٹھ جاتا ہوں ‘ پھر دھیان لگانے کی کو شش کر تا ہوں خود کو صاحب مزار کے حوالے بھکاری کے طور پر پیش کر دیتا ہوں اب صاحب مزار کا موڈ ہے وہ دے نہ دے میرے ساتھ آنے والے دوستوں کو میری اِس حالت کیف کا پتہ ہے وہ پھر مجھے اِس حالت میں بلانے یاچھیڑنے کی کو شش نہیں کر تے ‘ میں نے سب کو پہلے ہی بتایا ہواہے کہ جب بھی میری یہ حالت ہو تو مجھے میرے حال پر چھوڑ دیا جائے ‘ میں منٹوں گھنٹوں جتنا بھی روحانیت اور سرشاری کے سمندر میں غو طہ زن رہوں یہ مجھ سے دور رہتے ہیں لیکن آج ایسا نہیں ہوا میں نے جیسے ہی وادی روحانیت اور سرشاری میں اُترنا شروع کیا ابھی یہ سفر تھوڑا ہی ہوا تھا کہ کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اوربولا آپ بھٹی صاحب ہیں۔

میں نے نا گواری میں آنکھیں کھول دیں میرے نیم خوابیدہ اعصاب بیدار ی کے عمل سے گزرنے لگے دیکھا تو سامنے ایک شکستہ حال پھٹے پرانے بلکہ چھیتڑوں میںملبوس ‘ سر اور داڑھی کے بال بے ترتیبی سے بڑھے ہوئے جسم کی رنگت کپڑوں کی شکستگی بتا رہی تھی کہ یہ شخص مہینوں سے نہیں نہا یا ‘ جسمانی صحت بتا رہی تھی کہ برسوں سے رج کے کھانا نہیں کھایا جسم اور روح کا تعلق کچے دھاگے والا لگ رہا تھا ‘ آنکھوںچہرے جسم کے انگ انگ سے غربت لاچاری کمزوری بے بسی ٹپک رہی تھی ‘ ایک زندہ لاش تھی جو میرے سامنے کھڑی تھی اُس کی حالت زار دیکھ کر میرا غصہ کم ہو تا گیا اِسی دوران میرے دوست آگے بڑھ کر اُسے پیچھے کر نے لگے تو میں نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں منع کر دیا اور ساتھ ہی سامنے کھڑے شخص کو اشارہ کہا کہ بیٹھ جائے وہ ممنون نظروں سے میری طرف دیکھتا ہوا بیٹھ گیا اور بولا آپ نے یقینا مجھے نہیں پہچانا تو میں نے انکار میںسر ہلا دیا تو وہ بولا میں بیس سال پہلے آپ کو مری میں ملا تھا میںآپ کے پاس دو لڑکیوں کے ساتھ آیا تھا میری چوری ہو گئی ہے اُس کے بتا نے پر مجھے وہ واقعہ یاد آگیا میرے کالج کے بندے کے ساتھ ایک چالیس سالہ شخص جو لاہور سے آیا تھا اِس لیے کہ رات کو میرے کمرے سے مہنگی گھڑی سونے کی چین انگوٹھی اور پیسے چوری ہو گئے ہیں میرے پاس چور کا پتہ کرنے آیا تھا آج وہ اُس چوری کے راز سے خود ہی پردہ اٹھا رہا تھا۔

جناب وہ چوری میں نے خود ہی کرائی تھی اُس ڈرامے کا ذمہ دار میں ہی تھا اب اُس نے بتا نا شروع کیا جناب میں جوانی میں بدکار زانی شرابی جواری انسان تھا مجھے زنا کی لت تھی میرا طریقہ واردات یہ تھا والدین نے وراثت میں بہت زیادہ جائیداد اور دولت چھوڑی تھی میں نے زنا کی لت پو ری کر نے کے لیے دفتر بنایا ہوا تھا جہاں پر مجبور خوبصورت لڑکیوں کو بھرتی کر تا ان لڑکیوں کو ٹور پر لے کر جاتا ان کو پیسے دے کر اپنا منہ کالا کرتا’ زیادہ تر لڑکیاں تو خود ہی مان جاتیں اگر کو ئی نہ مانتی تو میں اُس پر چوری کا الزام لگا کر اُن پر مقدمہ کر اتا ‘ تھانے دار ملا ہوتا تھا جب اُس پر جرم ثابت ہو جاتا تو اُسے کہتا اگر تم جیل یا سزا سے بچنا چاہتی ہوتو میری بات مان لو اِس طرح ہر لڑکی میرے بستر کی زینت بنتی ‘ میں اِس کو اپنی چالاکی اور ذہانت قرار دیتا ‘ میں مختلف دفتروں میں جاتا جہاں کو ئی خوبصورت جوان لڑکی نظر آتی اُس کو پر کشش تنخواہ کی آفر کر دیتا وہ خود ہی اگلے دن میرے دفتر آجاتی اِس کے علاوہ اخبارات رسائل میں پر کشش جاب آفر کے اشتہارات بھی دیتا ‘ میں لڑکی کے حسن معیار کے مطابق جال بنتا کسی کو پی سی بھوربن کسی کو دبئی سنگا پور لے کر جاتااِسطرح میں اپنی جنسی درندگی کی خواہش پوری کرتا ‘ میں روز جوانی کے نشے میں دھت کہ نہ تو پیسہ ختم ہو تا ہے اور نہ ہی جوانی نے ختم ہونا ہے اِسی سلسلے میں آپ کے پاس مری بھی آیا اُن دو لڑکیوں پر بھی یہی الزام کے تم میں سے کو ئی چور ہے جس نے اپنے یا رکو بلا کر چوری کرائی ہے۔

آپ کے پاس آئے تو آپ نے کہا بھی کہ یہ دونوں لڑکیاں چور نہیں ہیں لیکن میں نے پھر بھی اُن پر الزام لگا کر تھانے لے گیا اُن کو پھنسا کر اپنی ہوس پو ری کی میری بد کاری چالاکی ہوس کا ظالمانہ کھیل جاری تھا میں دولت جوانی کے نشے میں جنسی ہوس کے ریکارڈ بناتا جا رہا تھا لیکن پھر قدرت کا ہاتھ حرکت میں آیا میری زندگی میں ایک ایسی لڑکی آئی جس کی بڑی بہن میری جنسی ہوس کی وجہ سے خودکشی کر کے مر گئی تھی چھوٹی بہن انتقام کا مشن لے کر آئی وہ بہت ہی خوبصورت تھی اُس نے مجھے محبت کے جال میں پھنسا کر میرے قریب آئی ‘ شادی کا وعدہ کیا میں اُس کے جال میں پھنستا چلا گیا اُس نے مجھے ہیروئن اور شراب چرس کے نشے میں لگایا ‘ جوئے پر ابھارا ‘ بینکوں سے بڑا قرض حاصل کیا نشے میں دھت کاغذوں پر دستخط کروا کر میری ساری جا ئیداد بد معاشوں کو بیچ دی جن سے میں لڑ نہیں سکتا تھا جب میں نے واپس لینے کی کو شش کی تو طاقت ور بد معاشوں نے میرے اوپر بہت سارے جھوٹے پرچے کرا دئیے ‘ میں کنگال ہو چکا تھا اب جیل کا ڈر پھر وہ لڑکی بھی بھاگ گئی اب میں جیل کے خوف سے پچھلے کئی سالوں سے بھاگتا پھرتا ہوں ‘ میرے جسم میں بیماریاں ہی بیماریاں ہیں میں راتیں دربار پر گزارتا ہوں آپ کا چہرہ نہیں بھولا تھا آج آپ کو دیکھا اور آپ کے دوستوں نے بتا یا تو آپ کے سامنے آگیا میں اب بھکار ی ہوں جو لوگوں سے مانگ کر اپنے پیٹ کی آگ بجھا تا ہوں مجھے معصوم لڑکیوں کی بد دعائیں لگ چکی ہیں اب میں نالی میں پڑا کیڑا ہوں جو زندگی کے دن پورے کر رہا ہے۔

Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti

Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی