انڈیا (جیوڈیسک) انڈیا میں کالعدم اسلامی جماعت سمی سے تعلق رکھنے والے آٹھ قیدیوں کے بھوپال کی انتہائی سکیورٹی والی جیل سے فرار اور ہلاکتوں پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
بھوپال پولیس کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ یہ قیدی ایک محافظ کو ہلاک کرنے کے بعد جیل سے فرار ہو گئے تھے۔
پیر کے روز پولیس نے بتایا تھا کہ کالعدم اسلامی جماعت سِمی (سٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا) کے آٹھ ‘انتہائی خطرناک’ قیدی بھوپال میں قائم انتہائی سکیورٹی کی جیل توڑ کر فرار ہو گئے تھے۔
تاہم چند گھنٹوں کے بعد اعلان کیا گیا کہ سب کے سب قیدی پولیس مقابلے میں مارے گئے۔
ریاست کے وزیرِ اعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان نے فوری طور پر پولیس کی کارروائی کو سراہا لیکن ساتھ ہی جیل کے سینیئر حکام کو معطل کر دیا اور قیدیوں کے فرار کی تحقیقات کا اعلان کیا۔
لیکن اس واقعے کے بعد ‘پولیس مقابلے’ سے پہلے اور بعد کی کئی غیر تصدیق شدہ ویڈیوز سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلوں پر سامنے آئیں۔
ایک ویڈیو میں ایک پولیس آفیسر کو کسی کا نشانہ لیتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس سے اگلے فریم میں کچھ افراد کو نیچے لیٹے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ان ویڈیوز سے یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کم از کم ایک شخص کو حراست میں لے کر گولی ماری گئی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ یہ ویڈیوز غیر مصدقہ ہیں اور وہ تحقیقات کر رہی ہے۔ ان ویڈیوز کی آزادانہ ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے اور ان کے اصل ذریعے کے متعلق بھی نہیں پتہ چلایا جا سکا۔
انڈیا میں زیرِ حراست قیدیوں کی پولیس مقابلوں میں ہلاکتوں کا مسئلہ نیا نہیں ہے۔ انسانی حقوق کے کارکن اس پر تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکن الزام لگاتے ہیں کہ یہ درحقیقت ماورائے عدالت قتل ہیں۔
حالیہ واقعے میں حکام کے بیانات میں تضاد کی وجہ سے مسئلہ کھڑا ہوا ہے۔
‘پولیس مقابلے’ کے تقریباً ایک گھنٹے کے بعد ایک ٹی وی چینل نے ریاستی وزیرِ داخلہ سے منسوب ایک بیان میں کہا کہ ‘سِمی کے ارکان کے پاس بندوقیں تھیں، پولیس کے پاس ان کو مارنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔’
اسی شام ایک سینیئر پولیس آفیسر نے صحافیوں کو بتایا کہ ہلاک ہونے والے قیدیوں کے قبضے سے آتشی اسلحہ اور تین تیز دھار والے ہتھیار برآمد ہوئے تھے۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ پولیس نے اس وقت ردِعمل کا اظہار کیا جب ان پر گولیاں چلائی گئی تھیں اور آٹھ قیدی مقابلے کے بعد ہلاک ہوئے۔ پولیس کے مطابق وہ اس بات کی تحقیق کر رہی ہے کہ ان قیدیوں کے پاس اسلحہ کہاں سے آیا تھا۔
بھوپال کی جیل کے متعلق سمجھا جاتا ہے کہ وہاں سب سے محفوظ سہولیات ہیں اور وہاں 40 سے زیادہ کیمرے لگے ہوئے ہیں، لیکن جہاں ان قیدیوں کو رکھا گیا تھا وہاں اس رات مبینہ طور پر چار کیمروں نے کام کرنا بند کر دیا تھا۔
پولیس کا دعویٰ ہے کہ قیدیوں نے لکڑی اور ٹوتھ برشوں کو کاٹ کر چابیاں بنائیں اور پھر بیڈ شیٹوں کو ایک دوسرے کے ساتھ باندھ کر جیل کی دیوار پھاندی۔ تاہم ان کے اس دعوے پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
سابق وزیرِ داخلہ دگوجے سنگھ نے ٹویٹ کی کہ ‘کیا یہ لوگ خود ہی فرار ہوئے تھے یا انھیں کسی منصوبے کے تحت بھاگنے دیا گیا تھا؟’
حزبِ اختلاف کے ایک اور سیاست دان یہ جاننا چاہتے ہیں کہ سبھی قیدیوں کو ایک ساتھ کیوں رکھا گیا تھا جبکہ مبینہ طور پر ان میں سے تین قیدیوں نے تین سال قبل جیل سے فرار کی کوشش کی تھی؟
پولیس کا کہنا ہے کہ وہ تحقیقات کر رہی ہے لیکن ساتھ ساتھ اس نے یہ بھی کہا ہے کہ تمام ویڈیو فوٹیج غیر مصدقہ ہے۔
پولیس نے اس بات سے بھی انکار کیا کہ ہلاکتوں کو جان بوجھ کر اس طرح دکھایا گیا ہے کہ یہ پولیس مقابلہ لگے۔ لیکن کئی سیاستدان کہہ رہے ہیں کہ بحث سچ کے متعلق نہیں بلکہ پارٹی کی سیاست کے متعلق ہے۔
بی جے پی سے تعلق رکھنے والے مدھیہ پردیش کے ریاستی وزیرِ داخلہ بھوپندرا سنگھ ٹھاکر نے بتایا کہ ‘قومی سلامتی کے معاملات کو سیاست کا رنگ نہیں دینا چاہیے۔’
وفاقی وزیر ایم ونکایہ نائیڈو نے بھی ان کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ‘کچھ لوگوں کو جیل سے فرار ہونے والے قیدیوں کی فکر ہے، جو ہمیشہ قانون توڑتے رہے ہیں۔ یہ لوگ قومی سلامتی اور انڈین شہریوں اور انڈیا کے تحفظ سے زیادہ ان کی فکر کر رہے ہیں۔’