کراچی : جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل اور مرکزی جماعت اہل سنت کے نگران اعلیٰ شاہ محمد اویس نورانی صدیقی نے کہا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ تیس سال میں ایک لاکھ سے زائد بے گناہ لوگ لسانیت کی جنگ میں مارے جا چکے ہیں جب کہ کراچی اور بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریک آئے دن زور پکڑتی رہی ہیں ان تحریکوں نے اکثر اسٹیٹ کو یرغمال بنانے کی جسارت بھی کی ہے۔
ہر آمر حکومت ان دہشت گردوں کے ساتھ ساز باز کرتی رہی جب کہ سول حکومت اپنے کمزور ڈھانچے کی وجہ سے کوئی حتمی اقدام نہ کرسکی،وائٹ کالر افراد کے پیچھے سازشوں کے گھنائونے چہرے ہیں جنہیں ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا رہا،موجودہ حالات میں کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ بھوشن یادو بھارتی سازش کی واحد کڑی ہے؟ کیا صولت مرزا نے انکشافات نہیں کئے تھے کہ کراچی میں کون سی دہشت گرد جماعت بھارت کے فنڈ اور را کی ہدایتوں پر چلتی ہے؟ حکومت اور اداروں کو ٹکرائوں کسی بھی صورت ملک کے مفاد میں نہیں ہے،اور اس وقت حکومت کے اندرونی اختلافات بھی کھل کر سامنے آگئے ہیں۔
یوں لگتا ہے کہ معاملات بہت سے ہاتھوں سے نکل گئے ہیں، کوئی مضبوط فیصلہ اور مکمل پالیسی ہی تصادم کو بچا سکتی ہے، بھوشن یادوکے انکشافات تیس سال کی لائن اپ کھولنے کے مترادف ہے،جرم کی لمبی داستانیں کھولی جائیں اور ملک دشمن عناصر کو بے نقاب کیا جائے جو اسمبلیوں اور اداروں میں موجود ہیں، ان سرکاری ملازمین پر بھی نظر رکھی جائے جو اس سلسلے کا حصہ ہیں،جمعیت علماء پاکستان نے چھ مہینے پہلے سے بلوچستان کے حوالے سے مختلف نوعیت کی باتیں کی تھیں جو آج یادو کی فائل میں موجود ہیں۔
اسلام آباد سے کراچی آمد پر صحافیوں اور تنظیمی ذمہ داران سے اہم امور پر گفتگو کرتے ہوئے جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل اور مرکزی جماعت اہل سنت کے نگران اعلیٰ شاہ محمد اویس نورانی صدیقی نے کہا کہ بھوشن یاود کے معاملے میں حکومت کا رویہ معذرت خوانہ ہے، حکومت عالمی میڈیا اور اقوام عالم کے سامنے بھارتی سازش بے نقاب کرے۔
لسانیت و قوم پرستی کی جنگ کس نے شروع کی اس کا بھی ریکارڈ نکالا جائے،مولانا شاہ احمد نوانی کے سیاسی شعور کی بصیرت سے دنیا آج تک آگاہ ہو رہی ہے جب کہ جمعیت علماء پاکستان گزشتہ تیس سال سے کلمہ حق بلند کر رہی تھی او ر اس وقت سربراہان مملکت غفلت کا مظاہرہ کر رہے تھے، یاود کے انکشافات کی جڑیں بلوچستان اور کراچی میں ہیں، گرفتاریوں میں دیر ہونے سے اکثر مجرم روپوش ہو جائیں گے۔