وزیراعظم عمران خان نے تبدیلی کا نعرہ بلند کیا تھا کہ وہ ملک کو کرپشن فری پاکستان بنا کر قومی دولت لوٹنے والوں سے نجات دلائیں گے جس کے نتیجے میں انھیں 2018ء کے عام انتخابات میں کامیابی ملی اب وہ اپنے اقتدار کے پانچ سالوں میں کیا تبدیلی لاتے ہیں پوری قوم کو عمران خان کی تبدیلی کا انتظار ہے کہ کب پاکستان بدلے گا کب ملک کے عوام کی تقدیر بدلے گی اور پاکستان کرپشن فری ملک بنے گا عمران خان کے تبدیلی کے نعرے سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بھی ملک میں تبدیلی کا نعرہ لگایا تھا اور اس تبدیلی کے ذریعے ملک کے عوام کو نہ صرف سیاسی شعور دیا تھا بلکہ انھیں پاکستان کی سیاست میں کردار بھی دیا تھا ورنہ 1970ء کے الیکشن سے پہلے تک پاکستان کی سیاست میں عام آدمی کا کوئی کردار نہیں تھا سیاست نوابوں،جاگیرداروں،دولتانوں اور ٹوانوں کے گرد ہی گھومتی تھی ان لوگوں کے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر ملک کے فیصلے کیے جاتے تھے یہی لوگ حکومت کرتے تھے جو اس ملک اور عوام کی قسمت کے فیصلے کرتے لیکن انھی جاگیرداروں کی صف میں سے بھٹو نے اپنے طبقے کی روایات کے برعکس عوام کے حقوق کی آواز اٹھائی اور عوام کو یہ شعور دیا کہ وہ اپنے ووٹ کی طاقت سے اس ملک کی تقدیر کے فیصلے خود کریں۔
بھٹو نے پاکستان کی سیاست میں تبدیلی کا نعرہ بلند کرکے غریب عوام کو روٹی کپڑا اور مکان دینے کا وعدہ ہی نہیں کیاتھا بلکہ اس پر کسی حد تک عمل بھی کیا۔یہ بھی ایک تاریخی تلخ حقیقت ہے کہ بھٹو مرحوم پہلی بار جنرل ایوب خان کے مارشل لاء دور میں وزیر بنے وہ جنرل ایوب خان کو سیاسی ڈیڈی بھی کہتے تھے جیسا کہ بعد میں سابق وزیراعظم میاں نوازشریف جنرل ضیاء الحق کو اپنا سیاسی باپ کہتے رہے تھے ۔سر شاہنواز بھٹو جیسے بہت بڑے جاگیردار کے گھر میں آنکھ کھولنے والے برطانیہ سے قانون کے اعلیٰ تعلیم یافتہ ذوالفقار علی بھٹونے تیس نومبر1967ء کو لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھ کر غریب عوام کے حقوق کی آواز بلند کی انھوں نے اپنی جماعت کے پیغام کو عوام تک پہنچانے اور اسے مقبول بنانے کے لیے ملک بھر کے دورے کیے دن رات محنت کی اور بہت تھوڑے عرصے میں پیپلز پارٹی کو ملک کی ایک بڑی جماعت بنا دیا۔ انھوں نے 1970ء کے عام انتخابات میں غریب اور عام آدمیوں کو ٹکٹ دئیے ان میں قصور،شیخوپورہ کے دور دراز علاقوں سے سائیکلوں میں پنکچر لگانے والے،تانگہ چلانے والے جیسے غریب آدمی کو بھی اقتدار کے ایوانوں میں پہنچایا ان میں قصور پنکچر لگانے والے اللہ دتہ سے لے کر سیالکوٹ کے ایک عام آدمی قاضی ذکاء الدین جیسے لوگ شامل تھے سیالکوٹ کے ہی ایک غیرمعروف وکیل میاں مسعود احمد کو قومی اسمبلی کی نشست کے لیے ٹکٹ دیا جس نے ملک بھر میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کا ریکارڈ بھی قائم کیا ایسے ہی لوگوں میں ایک معمولی صحافی حنیف رامے کو وزیراعلیٰ پنجاب بنایا تو میانوالی کے کوثرنیازی ،،شیخ رشید احمد مرحوم جیسے نظریاتی لوگوں کو وفاقی وزیربنایا ایک معمولی وکیل معراج خالد کو قومی اسپیکر کا عہدہ دیابھٹو نے 1973ء میں ملک کا پہلا متفقہ آئیں بنا کر دیا ذوالفقار علی بھٹو کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انھوں نے قومی اسمبلی سے متفقہ طور پر مرزائیوں کو کافر قرار دیا۔
طالبعلموں کو یونین سازی کا حق دیا تعلیم عام کرنے کے لیے طالبعلموں کو بسوں پر مفت سفر کی سہولت دی بھٹو کی سیاست سے بہت لوگوںکو اختلاف بھی ہو سکتا ہے لیکن ان کے مخالفین بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ اس ملک کی سیاست میں تبدیلی لے کر آئے انھوں ملک کے غریب اور عام آمی کو سیاسی شعور دیا اور وہ ہمیشہ اپنے نظریات پر کاربند رہے۔ 1977ء میں جنرل ضیاء الحق نے بھٹو حکومت ختم کرکے ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا اور بھٹو کر گرفتار کرلیاجنرل ضیاء کے دور میں ہی نواب محمداحمد خان قصوری کے مقدمہ قتل میں بھٹو کو سزا ئے موت سنائی گئی اور چار اپریل1979ء کے روز بھٹو کو پھانسی دیدی اس مقدمہ کے مدعی نواب محمداحمد خان قصوری مقتول کے بیٹے احمدرضا قصوری تھے یہ مقدمہ آج بھی وطن عزیز کی عدالتی تاریخ میں متنازعہ شمار ہوتا ہے۔پیپلز پارٹی اور بھٹو کے حامی اس عدالتی فیصلے کو عدالتی قتل کہتے ہیں بھٹو مرحوم اگر اس مقدمہ میں پھانسی نہ بھی پاتے تو وہ اپنی طبعی عمر پوری کر چکے ہوتے لیکن انھوں نے پھانسی سے بچنے کے لیے اپنے نظریات سے پیچھے ہٹ کر عارضٰی زندگی کی بھیک نہیں مانگی۔ بھٹو سے ہزار اختلافات کے باوجود ان کے مخالفین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اپنے نظریات اور اصولی سیاست کیوجہ سے بھٹو کا نام آج بھی پاکستان کی سیاست میںزندہ ہے ۔بھٹو کی پھانسی کے بعد ان کے سیاسی مخالفین نے پیپلزپارٹی کو سیاست سے آئوٹ کرنے کے لیے بڑے جتن کیے لیکن انھیں بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے پھانسی کے بعد پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان پر سخت کڑا وقت آیا لیکن ان کی صاحبزادی محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنے باپ بھٹو کی جانشینی کا حق ادا کیا۔ انھوں نے کڑے وقت میں پارٹی کی قیادت سنبھالی اور بڑی جرات اور بہادری کیساتھ حالات کا مقابلہ کیا انھوں نے اپنی جدوجہد سے نہ صرف پارٹی کو زندہ رکھا بلکہ اپنی انتھک کوششوں اور جدوجہد سے اسلامی دنیا کی پہلی وزیراعظم بننے کا اعزاز بھی حاصل کیا وہ دو بار پاکستان کی وزیراعظم منتحب ہوئیں ۔۔۔۔ کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسہ عام سے خطاب کرنے کے بعد واپس جاتے ہوئے قاتلانہ حملہ میں شہید ہو گئیں جس کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت بھٹو خاندان کے ہاتھوں سے نکل کر ان کے شوہر آصف علی زرداری کے پاس آگئی جنھوں نے بھٹو کارڈ کو بڑی عقلمندی کیساتھ کھیلا جس کے نتیجے میں پارٹی کو الیکشن میں کامیابی سے حکومت ملی اور وہ ملک کے صدر بھی منتحب ہوئے لیکن اس کے بعد پیپلز پارٹی کی پالیسیوں میں تبدیلیوں کیساتھ مقبولیت میں بھی کمی آتی گئی اور 2018ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی صرف سندھ میں ہی حکومت بناسکی۔ یہ حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹوکی پھانسی اور محترمہ بینظیربھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی اب پہلے جیسی بائیں بازو کی نظریاتی جماعت نہیں آتی اس کی پالیسیوں اور انداز سیاست میں بھی بہت زیادہ تبدیلیاں آ چکی ہیں اس وقت ذوالفقار علی بھٹو کا نواسہ،بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کا بیٹا بلاول بھٹو زرداری پارٹی کا چیئرمین ہے جو اپنے ننھیال کیطرف سے اپنے نام کیساتھ بھٹو زرداری لکھتا ہے۔
بھٹو کے سیاسی وارثوں نے بھٹو کا نام اقتدار کے لیے تو سیاسی طور پر کیش کرایا لیکن عملی طور پر ان کے نظریات پر عملدرامد نہیں کرسکے بلکہ بھٹو کے سیاسی وارثوں نے اقتدار کے لیے بھٹو کے نظریاتی مخالفین اور جنرل ضیاء کے سیاسی جانشینوں سے بھی ہاتھ ملا کر مفاہمت کرلی ۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت پیپلز پارٹی کی سیاست ہی تبدیل نہیں ہوئی بلکہ سیاسی کھیل کے میدان اور کھلاڑی بھی تبدیل ہوچکے ہیں۔یوں کہہ لیں کہ وقت کی رفتار کیساتھ دنیا تبدیل ہوگئی ہے تو اسی طرح بھٹو کی پیپلزپارٹی بھی تبدیل ہوگئی ہے تبدیلی کا یہ سفر یوں ہی جاری رہے گا اب پاکستان کے عوام اس انتظار میں ہیں کہ کب وزیراعظم عمران خان کی تبدیلی کے نعرے اور وعدوں کے نتیجے میں پاکستان بھی تبدیل ہوگا اور یہ کرپشن فری اور ترقی یافتہ پاکستان بنے گا۔انشاء اللہ