تحریر : محمد عرفان چودھری تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں نے کبھی یہ بھی نعرہ لگایا تھا کہ جب تک پارٹی میں لوٹا کریسی کی سیاست ہے تب تک پارٹی شفاف انداز میں سیاست نہیں کر سکتی پارٹی کو زوال سے بچانے کے لئے لوٹا کریسی سے پاک کرنا ہوگا مگر تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے جب تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان نے 1996ء میں عام آدمی کے ذریعے شروع ہونے والی پارٹی میں لوٹے بھرتی کرنے شروع کر دیے اور یوں اپنے ہی قول سے یو ٹرن لے کر ثابت کر دیا کہ بناء یو ٹرن لئے کوئی بھی سیاستدان سیاست نہیں کر سکتا عمران خان کی پارٹی میں لوٹوں کے بھرتی ہونے کا سلسلہ تا حال جاری ہے اور بڑے بڑے لوٹے بھرتی کئے جا رہے ہیں مگر ان تمام لوٹوں میں ایک بات قدرے مشترک ہے کہ زیادہ تر لوٹے پیپلز پارٹی کی دکان سے آئے ہیں جن میں قابل ذکر شاہ محمود قریشی ہیں جنہوں نے 1986 ء میں پاکستان مسلم لیگ جونیجو گروپ سے سیاسی قدم اٹھایا اور 1988 ء میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کو جوائن کر لیا پھر 1990 ء میں (ن) لیگ کو خیر باد کر کے مسلم لیگ (جے) میں ڈیریہ جمایا پھر پرانی عادات کی بدولت 1993 ء تا 2011 ء میں پیپلزپارٹی کی خدمات کیں اور پھر بالآخر تحریک انصاف میں شامل ہو گئے اب دیکھنا یہ ہے کہ 2018 ء کے الیکشن کے بعد شاہ محمود قریشی کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ان کے علاوہ راجہ ریاض، نذر محمد گوندل،غلام مرتضیٰ ستی، سید صمصام علی شاہ، نور عالم خان، فردوس عاشق اعوان جیسے بڑے نام پیپلز پارٹی سے نکل کر تحریک انصاف میں شامل ہو چکے ہیں جبکہ غلام مصطفٰے کھر، حنا ربانی کھر، ذولفقار مرزااور فہمیدہ مرزا تحریک انصاف میں شمولیت کے لئے پَر تول رہے ہیں۔
یوں بیس سال سے سیاست کرنے کے باوجود عمران خان کو اپنی ناکامی نظر آتی رہی اس لئے تحریک انصاف نے بھٹو پارٹی کے کارکنوں کو نوازنے کا سلسلہ شروع کر دیا اس لوٹا کریسی کی سیاست میں خالی عمران خان کا ہاتھ نہیں ہے اس میں آصف علی زرداری نے بھرپور کردار ادا کیا ہے جاگیردارانہ سوچ کے مالک آصف زرداری نے پارٹی کے جیالوں کو وہ مقام نہیں دیا جوجناب ذولفقار بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے دیا تھا زرداری نے اپنے پانچ سالہ دورِ حکومت میںعوام کو تو لُوٹا ہی تھا ساتھ ہی ساتھ پیپلز پارٹی کے سینئیر کارکنوں، ورکروں اور جیالوں کو بھی فراموش کرکے پارٹی کو بیساکھیوں پر کھڑا کر دیا جس کے نتیجے میں چڑھتے سورج کو سلام کرنے والے افراد نے لوٹا کریسی کی سیاسی راہ اختیار کر لی اور یوں پنجاب میں بڑی حد تک پیپلز پارٹی کا صفایا ہو چکا ہے۔
اس لوٹا کریسی کی سیاست میں (ن) لیگ کے بھی بڑے سیاسی لیڈر تحریک انصاف میں شامل ہو چکے ہیں جو کہ (ن) لیگ کے لئے بھی خطرناک امر ہے مگر اس کے ساتھ ہی (ن) لیگ کو بڑا فائدہ بھی ہوا ہے جس کے تحت (ن) لیگ کی ایک بڑی سیاسی پارٹی سے جان چھوٹ گئی اب (ن) لیگ کا مقابلہ تحریک انصاف سے ہے مگر لوگ تحریک انصاف میں بے تحاشہ لوٹوں کی شمولیت سے خائف نظر آتے ہیں کیونکہ یہ وہی پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے کارکن ہیں جن کے خلاف تحریک انصاف بنائی گئی تھی اور اب عمران خان انہی کو اپنے ساتھ ملانے میں مصروف نظر آتے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ عمران خان پارٹی سربراہان سے کوئی ذاتی دشمنی نکال رہے ہیں ورنہ احتساب سب کا ہونا چاہئے نہ کہ کرپشن کر کے ساتھ مل جانے والوں کو چھوڑ دیا جائے۔
اس لئے تحریک انصاف کے کارکن عمران خان سے مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں کہ زرداری اور نواز لیگ کے ساتھیوں کو تحریک انصاف میں شامل نہ کیا جائے کیونکہ انہی لوٹوں کی بدولت پیپلز پارٹی و (ن) لیگ نے اپنی ساکھ کھو دی کہیں ایسا نہ ہو کہ آنے والے دنوں میں یہ لوٹے تحریک انصاف کا بیڑہ غرق کر کے کسی اور سیاسی جماعت کے جھولے میں جھولا جھول رہے ہوں اس لئے عمران خان کو چاہئے کہ اپنے قول پر لیا ہوا یو ٹرن واپس لیں اور پارٹی سے تمام لوٹوں کو نکال کر اسے صحیح معنوں میں عوامی پارٹی بنائے تا کہ انصاف کے نام پر بنائی گئی تحریک کے تقاضے پورے ہوںاس کے ساتھ زرداری کو چاہئے کہ بلاول کی ابھی سیکھنے کی عمر ہے اس لئے پارٹی کی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کے لئے روٹھے کارکنوں کو خود منائے، لوٹا کریسی کے حامل افراد کو پارٹی سے نکال باہر کرے اور اُس پیپلز پارٹی جس کی بنیاد روٹی ، کپڑا اور مکان کے منشور پر بھٹو نے رکھی تھی اُس منشور کو عملی جامہ پہنائے اسی میں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی بھلائی ہے وگرنہ شیر تو ہے ہی جنگل کا بادشاہ۔