تحریر : محمد ایوب جپہ ایڈووکیٹ کئی سال پہلے کی بات ہے کہ اسلام آباد کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں ملازم چھوٹے قد کے ایک نوجوان کو اپنے اس چھوٹے قد کی وجہ سے ہوٹل کے سٹاف اور آنے والے مہمانوں کے طنزیہ جملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس وجہ سے وہ اتنا تنگ آتا ہے کہ وہ خودکشی تک کے لیے تیار ہو جاتا ہے پھر ایک روز اس ہوٹل میں ایک جواہری آتا ہے اور اچانک اس کی نظر اس ہیرے پر پڑتی ہے اور وہ اسے اپنے کمرے میں بلا کر اسے اپنی پارٹی کا منشور سناتا ہے وہ اس چھوٹے قد کے نوجوان کو بتاتا ہے کہ اس نے ایک ایسے ملک کا خواب دیکھا جس میں سب انسان برابر ہوں گے نہ کسی مالک مل کو مزدور پر فوقیت ہو گی اور نہ کسی جاگیر دار کو مزارع پر نہ لوگوں کو ان کی نیچی ذاتوں کی وجہ سے حقارت سے دیکھا جائے گا
نہ جسمانی طور پر کمتر افراد پر طنز کے جملے کسے جائیں گے بلکہ اس ملک کے سب شہری برابر ہوں گے اس دن وہ پست قد شخص اس جوہری کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہے اور یوں شروع ہوتی ہے وفا کی ایک لازوال داستان. ….ذوالفقار علی بھٹو اور قاضی سلطان محمود کی داستان. …… بھٹو صاحب نہ صرف ایک بہت بڑے جوہری تھے جو ہیروں کی پرکھ رکھتے تھے بلکہ وہ ایک سنار بھی تھے جو ان گھڑے سونے کو ایک بہترین زیور کی شکل دے دیتے تھے جیسا کہ اسلام آباد کے مضافات کے ایک گاوں پنڈ ملکان میں پیدا ہونے قاضی سلطان کے ساتھ انہوں نے کیا. .
اپنے پستہ قد سے تنگ آ کر خودکشی تک کی سوچنے والے قاضی صاحب کو بھٹو صاحب نے اپنی صحبت سے ایک مضبوط اعصاب کا سیاسی ورکر بنا دیا جسے بعد میں ضیائی مارشل لا کی صعوبتیں بھی نہ توڑ سکیں بھٹو صاحب جب بھی راولپنڈی آتے تھے وہ قاضی صاحب کو بلا لیتے تھے بھٹو صاحب کے دور میں جتنی بھی پارٹی سے متعلقہ تقاریب پنڈی میں ہوتی تھیں ان میں اکثر میں قاضی صاحب ہی سٹیج سیکرٹری ہوا کرتے تھے یہاں تک شہید رانی کے لیاقت باغ میں ہونے والے جلسے کے جس کے بعد آپ شہید کر دی گئیں تھیں کے بھی بھی وہی سٹیج سیکرٹری تھے
Zulfiqar Ali Bhutto
1975 میں بھٹو صاحب نے قاضی صاحب کو PTDC میں لیزان افسر رکھوایا. ..پھر جب مارشل لا لگا تو ذوالفقار علی بھٹو کی گرفتاری کے خلاف قاضی صاحب نے خوب جدوجہد کی رات کو چھپ کر شہر میں پمفلٹس تقسیم کرتے تھے دیواروں پر اشتہار لگاتے تھے….گرفتاری سے ڈرے ہوئے جیالوں کا حوصلہ خود ریلیوں کی قیادت کر کے بڑھاتے تھے قد چھوٹا ہونے کی وجہ سے ان کے پاوں سائیکل کے پیڈلوں تک نہ پہنچ پاتے تو وہ سائیکل کے فریم کے پائیپ پر بیٹھ کر سائیکل بھی چلاتے اور نعرے بھی مارتے تھے ….
فوجی چاہ کر بھی انہیں نہ پکڑ پاتے تھے ….پھر آخر انہیں ایک دوست کے گھر سے گرفتار کر لیا گیا اور ایک ڈرم میں ڈال کر فوجی لاتوں سے وہ ڈرم پورے مری روڈ پر رول کرتے ہوئے لے گئے. …سالوں کی قید وبند کی صعوبتیں بھی انہیں بھٹو سے بے وفائی نہ کروا سکیں لال قلعے میں ان کے چھوٹے قد کا مزاق اڑایا جاتا تھا تشدد کیا جاتا تھا کہ وہ انہیں توڑ سکیں. ..فوجی جانتے تھے کہ ا گر وہ اس تین فٹ کے شخص کو نہ توڑ سکے تو اس سے باقی جیالوں کو بھی حوصلہ ملے گا لیکن وہ اپنے سارے داو پیچ آزما کر بھی قاضی صاحب کو نہ توڑ سکے اور یوں قاضی صاحب نے بھٹو صاحب سے وفا کی ایک انمول داستان رقم کی. ..
Qazi Sultan Mehmood
یہ سلسلہ بھٹو صاحب کی پھانسی پر رکا نہیں بلکہ قاضی صاحب نے اپنی وفاداری بی بی اور بلاول بھٹو کے ساتھ بھی نبھائی جب تک کہ ان کے دم میں دم تھا وہ بھٹو صاحب کی اولاد کے ساتھ بھی رہے اور اب مرنے کے بعد یقینی طور پر بھٹو صاحب اور شہید محترمہ کے ساتھ جنت میں ہوں گے انشاءاللہ