تحریر: مریم ثمر آج جب دنیا ستاروں پر کمند یں ڈال رہی ہے۔ نت نئے انکاشافات ایجادات سامنے آرہی ہیں۔ سو سالہ نیوٹن کی تحقیق اور ان کے حقائق سامنے آرہے ہیں ۔ بدقسمتی سے ہمارا ملک پاکستان دور جہالت سے بھی پہلے کے دور یعنی پتھر کے زمانہ میں سانس لے رہا ہے۔ ہماری تحقیق صرف جانوروں پھلوں یا پھر اتفاقیہ طور پر آسمان پر بننے والے بادلوں میں مقدس ناموں کی تلاش تک محدودہے ۔اور افسوس تو اس بات کا بھی ہے کہ اس سلسلہ میں جھوٹ کا بے دھڑک سہارا لینے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا کافروں کی مرہون منت ملی ٹکنالوجی سے اللہ اور اس کے رسول کا نام کبھی آسمان پر کبھی بادلوں کی شکل میں تو کہیں کسی بچے کے ماتھے پر کمال مہارت سے لکھا جاتا ہے۔
دوسری طرف پانی سے موٹر چلانے کا جھوٹا دعوی اور اس کو اس وقت تک سراہنا جب تک کہ جھوٹ کھل کر سامنے نہ آجائے یا پھر کشش ثقل پر کی گئی تحقیق کو ہی سراسر غلط قرار دینا۔ ہمارے ملک کے سادہ لوح عوام پیری فقیری کے چکروں اور جال میں تو ویسے ہی پھنسے ہوئے ہیں ۔ ایک ہستی پر ایمان اور اعتقاد کی بجائے ان پر زیادہ بھروسہ کیا جاتا ہے ۔ ہزار بار لٹنے اور یہ جاننے کے باوجود کہ یہ سراسر فراڈ اور دھوکہ ہے مومن بار بار انہیں سے ڈسے جارہے ہیں اور ان پر بھروسہ کرتے ہیں بد قسمتی سے ہمارا بکاو میڈیا ۔ ریٹنگ کو اپنا خدا مان چکی ہے یہی وجہ ہے کہ جھوٹ کی آمیزش کرکے ایسے پروگراموں کو ڈرامائی اندا ز میں پیش کیا جاتا ہے۔ اور عوام الناس جس کی اکثریت ہی ان پڑھ اور جاہل ہے فوری طور پر ان سے متاثر ہوجاتی ہے۔
Ghost
ابھی حال ہی میں ایک نیا شوشہ چھوڑا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کہلائے جانے والے ملک کے وفاقی دارلحکومت میں بھوت کی موجودگی ۔ ویسے تو قیام پاکستان کے بعد سے ہی بہت سے بھوت ہیں جو عوام کو چمٹے ہوئے ہیں اور ایک عرصہ سے خون چوس رہے ہیں اسلام آباد میں اس انسان نما بھوت کو حقیقت کا رنگ دینے کے لئے کبھی اس کی تصاویر اور کبھی ویڈیو بنا کر خوف و ہراس پھیلانے کی خاطر سوشل اور پرنٹ میڈیا میں خوب تشہیر کی جارہی ہے ۔ یہ ماڈرن دور کا بھوت ہے جو سیلفی اور ویڈیو بنانے میں فخر محسوس کرتا ہے جہاں تک میں سمجھتی ہوں ضرور اس کے پیچھے مکروہ چال ہے۔ جیسا اکثر ہمارے ملک میں ہوتا ہےکہ ناجائز مقاصد کے حصول کے لئے عوام الناس کے دل میں خوف بٹھایا جاتا ہے ۔ جو قوم پہلے ہی بم دھماکوں اور امن و امان کی مخدوش صورتحال سے ڈری ہو اسے اس طرح کی غیر اخلاقی حرکات کرنے والوں کے خلاف سختی سے نبٹنے کی ضرورت ہے۔
ہمارے ملک میں تو ویسے بھی بھوتوں کی کمی نہیں ۔آیئے کچھ بھوتوں سے آپ کو ملواتے ہیں ۔ بھوت سیاست دانوں کا تو ذکر ہوگیا جو صرف الیکشن کے دنوں میں نظر آتے ہیں روٹی کپڑا مکان اور دیگر سہولیات دینے کا وعدہ کرتے ہیں ۔ مگر جب الیکشن جیت جاتے ہیں تو ایسے غائب ہوتے ہیں جیسے گدھے کےسر سے سینگھ ۔ سب سے زیادہ کھلواڑ تو تعیلم سے کی جارہی ہے ہمارےملک میں 12 ہزار گھوسٹ سکول ہیں جن کاسرے سے کوئی وجود ہی نہیں۔ مگر معجزہ دیکھیں کہ ان سکولوں کے لئے باقائدہ فڈ جاری کئے جاتے ہیں۔ ایسے بھوت اساتذہ پورے ملک میں موجود ہیں ان کو باقائدہ تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ یوں غائب سکول کی طرح یہ اساتذہ بھی غائب ہیں۔ پھر ایسی لائبریریاں ہیں جن کا کوئی وجود نہیں مگر ان کے نام پر فنڈ قائم ہیں۔
NGOs
ہر سال پچاس میلن روپے گھوسٹ ہسپتالوں کو جاری کیئے جاتے ہیں ۔ ۔ بھوت این جی اوز کافی تعداد میں موجود ہیں جو فنڈ لینے کے لئے محض کاغذات میں دکھائی دیتی ہیں ۔ بہت سے بھوت اہلکار ہیں جو تقریبا ہر شعبہ میں کاغذی طور پر تو موجود ہیں مگر حقیقت میں ان کا کوئی وجود نہیں حیرت انگیز طور پر ان کے نام سے تنخواہیں اور دیگر مراعات دی جاتی ہیں ۔ ان سب بھوتوں کے ساتھ ساتھ بھوت پنشنر ز کی تعداد 25 لاکھ ہے جو حکومتی کھاتوں سے پنشن لے رہے ہیں ۔ پھر ایسے مذہبی بھوت بھی عوام الناس کو چمٹے ہوئے ہیں ہیں جن کا کام صرف آخرت سے ڈرانا کفر اور قتل کے فتوے جاری کرنا ہے ۔ خود دنیا جہاں کی نعمتوں اور آسائیشوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں مگر عوام کے لئے ان سہولیات کو ناجائز قرار دیتے ہیں۔
اپنے بچوں کو جہاد پر بھیجنے سے گریزاں ہیں مگر عام مسلمانوں کو اس کی ترغیب دیتے ہیں۔ ان کے بچے مدرسوں میں پڑھنے کی بجائے کافر ممالک میں اعلی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور پھر واپس آکے ملک اور یہاں کے لوگوں کوایسے چمٹ جاتے ہیں کہ الگ ہونے کا نام نہیں لیتے۔ یہ سب ایسے حیرت انگیز بھوت ہیں جو پاکستان میں باآسانی ںظر آئیں گے ۔ ان سب سے نجات کا کوئی ٹوٹکا کوئی تعویذ کوئی توڑموثر نہیں ۔ آپ ہی بتاہیے یہ پاکستان ہے یا بھوتیستان۔ ؟