امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) بائیڈن انتظامیہ کی جمعہ 25 جون کو افغان صدر اشرف غنی اور قومی مفاہمت کونسل کے چیئرمین عبداللہ عبد اللہ سے ملاقاتوں کے بارے میں ماہرین اور تجزیہ کار اپنے اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ بائیڈن انتظامیہ امریکی حمایت جاری رکھنے کی یقین دہانی کے علاوہ افغان سیاسی قیادت کو ملکی مستقبل کے بارے میں اپنے اختلافات کو دور کرنے کی ترغیب دلائے گی۔
امریکی صدر جو بائیڈن کی افغان اعلی قیادت سے ملاقات ایک ایسے وقت پمیں ہونے جا رہی ہے جب طالبان ملک کے مختلف علاقوں پر افغان سکیورٹی فورسز کے خلاف ایک بڑی فوجی کارروائی کر رہے ہیں۔ حال ہی میں متعدد شہروں پر حملے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ افغان سکیورٹی فورسز امریکی فورسز کی عدم موجودگی میں طالبان کی کارروائی کا مقابلہ نہیں کرسکیں گی۔ بائیڈن انتظامیہ نے 11 ستمبر تک افغانستان سے امریکی افواج کے مکمل انخلا کا اعلان کیا ہے۔ لیکن بائیڈن انتظامیہ کی افغانستان سے دستبرداری کی پالیسی حریف سیاسی کیمپوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بن رہی ہے ، جو وائٹ ہاؤس پر زور دے رہے ہیں کہ وہ انخلا کے بعد کے متبادل پر غور کریں۔
22 جون کو ریپبلکن قانون ساز لنڈسے گراہم نے ایک ٹویٹ میں انخلا کے بعد کے انتظامات میں پاکستان کو شامل نہ کرنے پر انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ جنوبی کیرولائنا سے تعلق رکھنے والے حزب اختلاف کے سینیٹر نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ کا امریکی افواج کا پاکستان کے ساتھ معاہدے کے بغیر انخلا کا فیصلہ عراق سے بھی بدتر ثابت ہوسکتا ہے۔
اپریل میں امریکی وزیر خارجہ نے کابل میں عبداللہ عبداللہ سے ملاقات کی تھی۔
ابھی تک، وائٹ ہاؤس نے اپنی افغان پالیسی پر تنقید پر کھلے عام رائے دینے سے گریز کیا ہے۔ افغانستان امور کے ماہر اور تجزیہ کار مارون وائن باؤم کا کہنا ہے کہ امریکی فورسز کے مکمل انخلا کے بارے میں انتظامیہ کے اندر اختلافات پائے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا ،” امریکی فوج انخلا کی مخالف ہے۔ اور کچھ اشارے یہ بھی ملے ہیں کہ محکمہ خارجہ کے اعلٰی عہدیداروں نے بھی بائیڈن کو افغانستان سے عجلت میں انخلا کرنے کے خلاف خبردار کیا ہے۔ لیکن بائیڈن مختلف رائے سننے میں دلچسپی نہیں رکھتے ہیں۔‘‘
مارون وائن باؤم نے مزید کہا کہ ایک اور اہم مسئلہ افغان سیاسی اشرافیہ کے مابین جاری اختلافات ہیں جو سیاسی حکمرانی کے معاملات میں آپس کے اختلافات دور کرنے سے قاصر ہیں ، جس سے طالبان کو فائدہ بھی ہوا ہے اور انہوں نے افغان سیاستدانوں کی اس نا اہلی سے فائدہ اٹھایا ہے۔
مارون وائن باؤم نے کے بقول، ” حکومت کو زیادہ خطرہ سیاسی عمل کی ناکامی سے ہے کابل پر طالبان کے قبضے سے نہیں ۔‘‘ انہوں نے کہا کہ صدر غنی کی قیادت اب تک حل کیبجائے مسئلے کا حصہ معلوم ہوتی ہے۔
ولسن سینٹر سے منسلک جنوبی ایشیائی امور کے ماہر مائیکل کوگل من نے کہا،” غنی اور عبداللہ بائیڈن کا اعتماد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ بائیڈن کو کہتے ہوئے سننا چاہتے ہیں کہ امریکا ترقیاتی امداد ، امن عمل کے لیے سفارتی مدد ، اور سب سے اہم بڑھ کر افغان فوج کے لیے مالی امداد فراہم کرتا رہے گا۔ وہ ایک ایسی فکر مند عوامی اور سیاسی قیادت کو یقین دلانے کی پوزیشن میں افغانستان واپس آنا چاہیں گے جب فوجیوں کے انخلا کے بعد امریکا افغانستان کو ترک نہیں کرے گا۔‘‘ کوگل من نے کہا امریکا افغانستان میں اثر و رسوخ کھو رہا ہے۔ وہ ایک اہم ملک تو رہے گا ، خاص طور پر اس کی مالی اور سفارتی طاقت کی وجہ سے، لیکن فوجی طاقت نا ہونے کا اس پر اثر ہو گا۔
کُوگل من نے اس امر سے اتفاق کیا کہ بائیڈن کا ستمبر تک تمام فوجیں واپس بلانے کا فیصلہ واشنگٹن میں متنازعہ تھا ، کیونکہ اس اقدام کے حق میں بہت کم اتفاق دیکنے میں آیا تھا۔ ان کے بقول،” کیپیٹل ہل پر انخلا کے طاقتور مخالفین کا غلبہ ہے، اور وسیع تر سیاسی و عسکری قیادت میں بھی۔ اب وقت آگیا ہے کہ آپ اپنے فیصلے پر توجہ مرکوز کریں ، اور یہ دیکھیں کہ کس طرح اس فیصلے کو بہتر بنایا جا سکتا ہے‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ،” افغانستان میں بگڑتی ہوئی سلامتی کی صورتحال کے پیش نظر ، انہیں یقین ہے کہ بائیڈن انتظامیہ افغانوں کی مدد کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گی جب کہ وہ ابھی بھی وہاں موجود ہے۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ستمبر میں پُل آؤٹ کا وقت کم کرنا۔‘‘
وائٹ ہاؤس نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ” امریکی حکومت افغانستان کی امداد جاری رکھے گی تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ یہ ملک کبھی بھی دہشت گرد گروہوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ نا بن پائے جو امریکا کے لیے خطرہ ہو۔ ‘‘ بیان میں مزید کہا گیا کہ امریکا امن عمل کی مکمل حمایت کرتا ہے اور تمام افغان فریقوں کو تنازعات کے خاتمے کے لیے مذاکرات میں معنی خیز حصہ لینے کی ترغیب دیتا ہے۔