واشنگٹن (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے افغانستان میں موجود باقی ماندہ فوج کا انخلا ستمبر تک مؤخر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
افغان طالبان اور ٹرمپ انتظامیہ کے درمیان گذشتہ سال فروری میں طے شدہ سمجھوتا کے مطابق اس سال یکم مئی تک جنگ زدہ ملک سے امریکی فوجیوں کا انخلا مکمل ہونا تھا۔
وائٹ ہاؤس کے ایک عہدے دار نے منگل کے روز صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’انخلا کی نئی تاریخ 11 ستمبر کی بیسویں برسی سے آگے کی نہیں ہوگی۔یہ اس سے پہلے کی کوئی تاریخ ہوگی۔‘‘
انھوں نے صحافیوں سے گفتگو میں مزید کہا کہ ’’اگر طالبان امریکی فورسز کے خلاف حملے کرتے ہیں تو ہم سخت جوابی وارکریں گے اور انھیں ان حملوں کا ذمے دار گردانیں گے۔نیز اگر دہشت گردی کے خطرات کا دوبارہ ظہور ہوتا ہے تو امریکا خطے میں اپنے ’’نمایاں اثاثے‘‘ موجود رکھے گا۔‘‘
قبل ازیں افغان حکومت بائیڈن انتظامیہ اور پینٹاگان پر یہ زور دے چکی ہے کہ وہ ملک سے فوجیوں کو واپس نہیں بلائے کیونکہ اس صورت میں ایک سکیورٹی انخلا پیدا ہوگا اور طالبان دوبارہ ملک کا کنٹرول سنبھال لیں گے۔
امریکا نے 11 ستمبر 2001ء کو اغواشدہ طیاروں سے نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور واشنگٹن کے نواح میں پینٹاگان کی عمارت پر حملوں کے ردعمل میں افغانستان میں جنگ شروع کی تھی۔سابق صدر جارج ڈبلیو بش نے افغانستان میں القاعدہ اور طالبان کی بیخ کنی کے لیے اسی سال اکتوبر میں پہلے فضائی حملوں کا حکم دیا تھا اور پھر انھوں نے افغانستان میں زمینی فوج اتار دی تھی۔اس جنگ کو اس سال اکتوبر میں بیس سال پورے ہوجائیں گے۔
پینٹاگان کے ترجمان جان کربی نے گذشتہ ماہ صحافیوں کو بتایا تھا کہ ’’نائن الیون کے بعد امریکا افغانستان میں 825 ارب ڈالر خرچ کرچکا ہے۔‘‘بعض تجزیہ کاروں کے مطابق امریکا اب افغانستان میں جھونکے جانے والے مالی وسائل کو دوسری جگہوں پر صرف کرنا چاہتا ہے۔ صدر بائیڈن چین اور روس کو امریکا کا دشمن نمبر ایک قرار دے چکے ہیں۔