امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی صدر جو بائیڈن نے ایرانی حکومت کے خلاف “قومی ایمرجنسی” میں مزید ایک سال کی توسیع کی منظوری دی ہے۔
وائٹ ہاؤس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکا اور ایران کے تعلقات ابھی تک بحال نہیں ہوئے اور ایران کی جانب “ایمرجنسی کی حالت” سے نمٹنے کے لیے نومبر 1979 سے شروع ہونے والا عمل جاری رہے گا۔
وائٹ ہاؤس کے بیان میں ایگزیکٹو آرڈر 12170 کا حوالہ دیا گیا جو پہلی بار 14 نومبر 1979 کو جاری کیا گیا تھا۔
یہ ایگزیکٹو آرڈر سابق امریکی صدر جمی کارٹر کی صدارت کے دوران اور تہران میں امریکی سفارت خانے پر قبضے کے 10 دن بعد جاری کیا گیا تھا۔ یہ قبضہ 4 نومبر 1979 کو “خمینی سے تعلق رکھنے والے طلباء” کے گروپ کی طرف سے کیا گیا۔
اس ایگزیکٹو آرڈر کو تمام ریپبلکن اور ڈیموکریٹک صدور نے ایران کے خلاف 42 سال تک بدستور جاری رکھا ہے میں کہا گیا ہے کہ ایران امریکا کی قومی سلامتی، خارجہ پالیسی اور معیشت کے لیے ایک غیر معمولی خطرے کی نمائندگی کرتا ہے۔
فارسی میں نشریات پیش کرنے والے امریکن فردا ریڈیو سٹیشن نےبتایا ہے کہ پچھلے جنوری میں بائیڈن کے وائٹ ہاؤس میں داخل ہونے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ انہوں نے ایران کے خلاف قومی ایمرجنسی میں توسیع کی ہے تاہم توقع تھی کہ ایسا کوئی فیصلہ جاری کیا جائے گا۔
بائیڈن کا یہ حکم اس وقت آیا جب ان کی حکومت نے ایران اور یورپی یونین کی جانب سے جوہری معاہدے کی بحالی پر بات چیت دوبارہ شروع کرنے کے حالیہ فیصلے کا خیرمقدم کیا اور تہران سے “نیک نیتی سے” مذاکرات کی میز پر واپس آنے کا مطالبہ کیا۔
ویانا مذاکرات جو ایران اور امریکا کے درمیان بالواسطہ مذاکرات بھی ہیں 28 دسمبر کو آسٹریا کے دارالحکومت میں دوبارہ شروع ہونے والے ہیں۔
بائیڈن انتظامیہ نے حالیہ مہینوں میں بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ جوہری معاہدے میں واپسی تبھی ممکن ہو گی جب ایران بھی معاہدے کے تحت اپنے تمام وعدوں پر عمل درآمد کرے۔